فَمَا أُوتِيتُم مِّن شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَمَا عِندَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ لِلَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ
سوجوکچھ تمہیں دیا گیا ہے وہ محض دنیا کی زندگی کا سازوسامان ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اس سے کہیں بہتر اور باقی رہنے والا ہے جو ایمان لائے اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں
درگزر کرنا بدلہ لینے سے بہتر ہے اللہ تعالیٰ نے دنیا کی بے قدری اور اس کی حقارت بیان فرمائی کہ اسے جمع کر کے کسی کو اس پر اترانا نہیں چاہیئے کیونکہ یہ فانی چیز ہے ۔ بلکہ آخرت کی طرف رغبت کرنی چاہیئے نیک اعمال کر کے ثواب جمع کرنا چاہیئے جو سرمدی اور باقی چیز ہے ۔ پس فانی کو باقی پر ، کمی کو زیادتی پر ترجیح دینا عقلمندی نہیں، اب اس ثواب کے حاصل کرنے کے طریقے بتائے جاتے ہیں کہ ایمان مضبوط ہو تاکہ دنیاوی لذتوں کے ترک پر صبر ہو سکے اللہ پر کامل بھروسہ ہو تاکہ صبر پر اس کی امداد ملے اور احکام الٰہی کی بجا آوری اور نافرمانیوں سے اجتناب آسان ہو جائے کبیرہ گناہوں اور فحش کاموں سے پرہیز چاہیئے ۔ اس جملہ کی تفسیر سورۃ الاعراف میں گذر چکی ہے ۔ غصے پر قابو چاہیئے کہ عین غصے اور غضب کی حالت میں بھی خوش خلقی اور درگذر کی عادت نہ چھوٹے چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اپنے نفس کا بدلہ کسی سے نہیں لیا ہاں اگر اللہ کے احکام کی بےعزتی اور بے توقیری ہوتی ہو تو اور بات ہے ۔(صحیح بخاری:3560) اور حدیث میں ہے کہ بہت ہی زیادہ غصے کی حالت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اس کے سوا اور کچھ الفاظ نہ نکلتے کہ فرماتے اسے کیا ہو گیا ہے اس کے ہاتھ خاک آلود ہوں ۔(صحیح بخاری:6031) حضرت ابراہیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں مسلمان پست و ذلیل ہوتا تو پسند نہیں کرتے تھے لیکن غالب آ کر انتقام بھی نہیں لیتے تھے بلکہ درگذر کر جاتے اور معاف فرما دیتے ۔ ان کی اور صفت یہ ہے کہ یہ اللہ کا کہا کرتے ہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہیں جس کا وہ حکم کرے بجا لاتے ہیں جس سے وہ روکے رک جاتے ہیں نماز کے پابند ہوتے ہیں جو سب سے اعلیٰ عبادت ہے ۔ بڑے بڑے امور میں بغیر آپس کی مشاورت کے ہاتھ نہیں ڈالتے ۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوتا ہے «وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْر» ( 3- آل عمران : 159 ) یعنی ان سے مشورہ کر لیا کرو اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جہاد وغیرہ کے موقعہ پر لوگوں سے مشورہ کر لیا کرتے تاکہ ان کے جی خوش ہو جائیں ۔ اور اسی بنا پر امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ نے جب کہ آپ رضی اللہ عنہ کو زخمی کر دیا گیا اور وفات کا وقت آ گیا چھ آدمی مقرر کر دئیے کہ یہ اپنے مشورے سے میرے بعد کسی کو میرا جانشین مقرر کریں ان چھ بزرگوں کے نام یہ ہیں ۔ عثمان ، علی ، طلحہ ، زبیر ، سعد اور عبدالرحمٰن بن عوف رضٰی اللہ تعالیٰ عنہم ۔ پس سب نے باتفاق رائے سے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنا امیر مقرر کیا پھر ان کا جن کے لیے آخرت کی تیاری اور وہاں کے ثواب ہیں ایک اور وصف بیان فرمایا کہ جہاں یہ حق اللہ ادا کرتے ہیں وہاں لوگوں کے حقوق کی ادائیگی میں بھی کمی نہیں کرتے اپنے مال میں محتاجوں کا حصہ بھی رکھتے ہیں اور درجہ بدرجہ اپنی طاقت کے مطابق ہر ایک کے ساتھ سلوک و احسان کرتے رہتے ہیں اور یہ ایسے ذلیل پست اور بیزور نہیں ہوتے کہ ظالم کے ظلم کی روک تھام نہ کر سکیں بلکہ اتنی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں کہ ظالموں سے انتقام لیں اور مظلوم کو اس کے پنجے سے نجات دلوائیں لیکن ہاں ! اپنی شرافت کی وجہ سے غالب آ کر پھر چھوڑ دیتے ہیں ۔ جیسے کہ نبی اللہ یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں پر قابو پا کر فرما دیا کہ جاؤ تمہیں میں کوئی ڈانٹ ڈپٹ نہیں کرتا بلکہ میری خواہش ہے اور دعا ہے کہ اللہ بھی تمہیں معاف فرما دے ۔ (12-یوسف:92)۔ اور جیسے کہ سردار انبیاء رسول اللہ احمد مجتبیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ میں کیا جبکہ اسی وقت کفار غفلت کا موقع ڈھونڈ کر چپ چاپ لشکر اسلام میں گھس آئے جب یہ پکڑ لیے گئے اور گرفتار ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دئیے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو معافی دے دی اور چھوڑ دیا ۔ اور اسی طرح آپ نے غورث بن حارث کو معاف فرما دیا یہ وہ شخص ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوتے ہوئے اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار پر قبضہ کر لیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جاگے اور اسے ڈانٹا تو تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار لے لی اور وہ مجرم گردن جھکائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بلا کر یہ منظر دکھایا اور یہ قصہ بھی سنایا پھر اسے معاف فرما دیا اور جانے دیا ۔(صحیح بخاری:4135) اسی طرح لبید بن اعصم نے جب آپ پر جادو کیا تو علم و قدرت کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے درگذر فرما لے۔(صحیح بخاری:5763) اور اسی طرح جس یہودیہ عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی بدلہ نہ لیا اور قابو پانے اور معلوم ہو جانے کے باوجود بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنے بڑے واقعہ کو جانا آنا کر دیا اس عورت کا نام زینب تھا یہ مرحب یہودی کی بہن تھی ۔ جو جنگ خیبر میں محمود بن سلمہ کے ہاتھوں مارا گیا تھا ۔ اس نے بکری کے شانے کے گوشت میں زہر ملا کر خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا تھا خود شانے نے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے زہر آلود ہونے کی خبر دی تھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلا کر دریافت فرمایا تو اس نے اقرار کیا تھا اور وجہ یہ بیان کی تھی کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ نقصان نہ پہنچا سکے گا ۔ اور اگر آپ اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں تو ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے راحت حاصل ہو جائے گی یہ معلوم ہو جانے پر اور اس کے اقبال کر لینے پر بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا ۔(صحیح بخاری:3169) معاف فرما دیا گو بعد میں وہ قتل کر دی گئی اس لیے کہ اسی زہر سے اور زہریلے کھانے سے بشر بن برا رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تب قصاصاً یہ یہودیہ عورت بھی قتل کرائی گئی ۔ اور بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عفو درگزر کے ایسے بہت سے واقعات ہیں صلی اللہ علیہ وسلم ۔