سورة غافر - آیت 66

قُلْ إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَمَّا جَاءَنِيَ الْبَيِّنَاتُ مِن رَّبِّي وَأُمِرْتُ أَنْ أُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آپ کہہ دیجئے مجھے ان کی عبادت سے منع کردیا گیا جن کو تم اللہ کے سواپکارتے ہو جبکہ میرے پاس رب کی جانب سے واضح دلائل پہنچ چکے ہیں اور مجھے حکم دیا گیا کہ میں رب العالمین کا فرمانبردار رہوں

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مشرکین کو دعوت توحید اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم ان مشرکوں سے کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ اپنے سوا ہر کسی کی عبادت سے اپنی مخلوق کو منع فرما چکا ہے ۔ اس کے سوا اور کوئی مستحق عبادت نہیں ۔ اس کی بہت بڑی دلیل اس کے بعد کی آیت ہے ، جس میں فرمایا کہ اسی «وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْک لَہٗ» نے تمہیں مٹی سے پھر نطفے سے پھر خون کی پھٹکی سے پیدا کیا ۔ اسی نے تمہیں ماں کے پیٹ سے بچے کی صورت میں نکالا ۔ ان تمام حالات کو وہی بدلتا رہا پھر اسی نے بچپن سے جوانی تک تمہیں پہنچایا ۔ وہی جوانی کے بعد بڑھاپے تک لے جائے گا یہ سب کام اسی ایک کے حکم تقدیر اور تدبیر سے ہوتے ہیں ۔ پھر کس قدر نامرادی ہے کہ اس کے ساتھ دوسرے کی عبادت کی جائے ؟ بعض اس سے پہلے ہی فوت ہو جاتے ہیں ۔ یعنی کچے پنے میں ہی گر جاتے ہیں ۔ حمل ساقط ہو جاتا ہے ۔ بعض بچین میں بعض جوانی میں بعض ادھیڑ عمر میں بڑھاپے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں ۔ چنانچہ اور جگہ قرآن پاک میں ہے «وَنُقِرٰ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَاۗءُ اِلٰٓی اَجَلٍ مٰسَمًّی» ( 22- الحج : 5 ) یعنی ہم ماں کے پیٹ میں ٹھہراتے ہیں جب تک چاہیں ۔ یہاں فرمان ہے کہ تاکہ تم وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔ اور تم سوچو سمجھو ۔ یعنی اپنی حالتوں کے اس انقلاب سے تم ایمان لے آؤ کہ اس دنیا کے بعد بھی تمہیں نئی زندگی میں ایک روز کھڑا ہونا ہے ، وہی زندگی دینے والا اور مارنے والا ہے ۔ اس کے سوا کوئی موت زیست پر قادر نہیں ۔ اس کے کسی حکم کو کسی فیصلے کو کسی تقرر کو کسی ارادے کو کوئی توڑنے والا نہیں ، جو وہ چاہتا ہے ہو کر ہی رہتا ہے اور جو وہ نہ چاہے ناممکن ہے کہ وہ ہو جائے ۔