سورة آل عمران - آیت 124

إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ أَلَن يَكْفِيَكُمْ أَن يُمِدَّكُمْ رَبُّكُم بِثَلَاثَةِ آلَافٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُنزَلِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جب (بدر کی جنگ میں) تم مومنوں سے کہہ رہے تھے کہ : کیا تمہارے لیے یہ بات کافی نہیں ہے کہ تمہارا پروردگار تین ہزار فرشتے اتار کر تمہاری مدد کو بھیج دے ؟

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

غزوہ بدر اور تائید الٰہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ تسلیاں دینا بعض تو کہتے ہیں بدر والے دن تھا حسن بصری ، عامر شعبی، ربیع بن انس رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا یہی قول ہے (تفسیر ابن ابی حاتم:519/2) ۱؎ ابن جریر رحمہ اللہ کا بھی اسی سے اتفاق ہے عامر شعبیرحمہ اللہ کا قول ہے کہ مسلمانوں کو یہ خبر ملی تھی کہ کرز بن جابر مشرکوں کی امداد میں آئے گا اس پر اس امداد کا وعدہ ہوا تھا لیکن نہ وہ نہیں آیا اور نہ ہی یہ گئے ربیع بن انس رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کیلئے پہلے تو ایک ہزار فرشتے بھیجے پھر تین ہزار ہو گئے پھر پانچ ہزار ،(تفسیر ابن جریر الطبری:178/7) ۱؎ یہاں اس آیت میں تین ہزار اور پانچ ہزار سے مدد کرنے کا وعدہ ہے اور بدر کے واقعہ کے بیان کے وقت ایک ہزار فرشتوں کی امداد کا وعدہ ہے ۔ فرمایا آیت «اَنِّیْ مُمِدٰکُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰیِٕکَۃِ مُرْدِفِیْنَ» (8-الأنفال:9) اور تطبیق دونوں آیتوں میں یہی ہے کیونکہ «مُرْدِفِیْنَ» کا لفظ موجود ہے پس پہلے ایک ہزار اترے پھر ان کے بعد تین ہزار پورے ہوئے آخر پانچ ہزار ہو گئے ، بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ وعدہ جنگ بدر کے لیے تھا نہ کہ جنگ احد کیلئے ، بعض کہتے ہیں جنگ احد کے موقعہ پر وعدہ ہوا تھا مجاہد، عکرمہ ،ضحاک، زہری، موسیٰ بن عقبہ رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا یہی قول ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ چونکہ مسلمان میدان چھوڑ کر ہٹ گئے اس لیے یہ فرشتے نازل نہ ہوئے ، کیونکہ «وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا یَضُرٰکُمْ کَیْدُھُمْ شَـیْـــًٔـا» (3-آل عمران:120) ساتھ ہی فرمایا تھا یعنی اگر تم صبر کرو اور تقویٰ کرو فور کے معنی وجہ اور غضب کے ہیں مسومین کے معنی علامت والے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں فرشتوں کی نشانی بدر والے دن سفید رنگ کے لباس کی تھی (تفسیر ابن ابی حاتم:565/2) ۱؎ اور ان کے گھوڑوں کی نشانی ماتھے کی سفیدی تھی ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ان کی نشانی سرخ تھی ، سیدنا مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں گردن کے بالوں اور دم کا نشان تھا اور یہی نشان آپ کے لشکریوں کا تھا یعنی صوف کا ۔ مکحول رحمہ اللہ کہتے ہیں فرشتوں کی نشانی ان کی پگڑیاں تھیں جو سیاہ رنگ کے عمامے تھے اور حنین والے دن سرخ رنگ عمامے تھے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں بدر کے علاوہ فرشتے کبھی جنگ میں شامل نہیں ہوئے (ابن ابی شیبہ:354/14) ۱؎ اور سفید رنگ عماموں کی علامت تھی یہ صرف مدد کیلئے اور تعداد بڑھانے کیلئے تھے نہ کہ لڑائی کیلئے ، یہ بھی مروی ہے کہ جنگِ بدر میں سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے فر پر سفید رنگ کا صافہ تھا اور فرشتوں پر زرد رنگ کا (تفسیر ابن ابی حاتم:567/2) ۱؎ پھر فرمایا کہ یہ فرشتوں کا نازل کرنا اور تمہیں اس کی خبر دینا صرف تمہاری خوشی ، دلجوئی اور اطمینان کیلئے ہے ورنہ اللہ کو قدرت ہے کہ ان کو اتارے بغیر بلکہ بغیر تمہارے لڑے بھی تمہیں غالب کر دے مدد اسی کی طرف سے ہے جیسے اور جگہ ہے آیت «فَإِذَا لَقِیتُمُ الَّذِینَ کَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّیٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوہُمْ فَشُدٰوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّیٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَہَا ۚ ذٰلِکَ وَلَوْ یَشَاءُ اللہُ لَانتَصَرَ مِنْہُمْ وَلٰکِن لِّیَبْلُوَ بَعْضَکُم بِبَعْضٍ ۗ وَالَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللہِ فَلَن یُضِلَّ أَعْمَالَہُمْ سَیَہْدِیہِمْ وَیُصْلِحُ بَالَہُمْ وَیُدْخِلُہُمُ الْجَنَّۃَ عَرَّفَہَا لَہُمْ » (47-محمد: 6- 4) ، اگر اللہ چاہتا تو ان سے خود ہی بدلہ لے لیتا لیکن وہ ہر ایک کو آزما رہا ہے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو قتل کئے جائیں ان کے اعمال اکارت نہیں ہوتے اللہ انہیں راہ دکھائے گا ان کے اعمال سنوار دے گا اور انہیں جنت میں لے جائے گا جس کی تعریف وہ کر چکا ہے ، وہ عزت والا ہے اور اپنے ہر کام میں حکمت رکھتا ہے ۔ یہ جہاد کا حکم بھی طرح طرح کی حکمتوں پر مبنی ہے اس سے کفار ہلاک ہوں گے یا ذلیل ہوں گے یا نامراد واپس ہو جائیں گے ۔ اس کے بعد بیان ہوتا ہے کہ دنیا اور آخرت کے کل امور اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں ، اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں کسی امر کا اختیار نہیں جیسے فرمایا آیت «فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلٰغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ» (13-الرعد:40) تمہارا ذمہ صرف تبلیغ ہے حساب تو تمہارے ذمہ ہے اور جگہ ہے آیت «لَّیْسَ عَلَیْکَ ہُدَاہُمْ وَلٰکِنَّ اللہَ یَہْدِی مَن یَشَاءُ» (2-البقرۃ:272)، ان کی ہدایت تمہارے ذمہ نہیں اللہ جسے چاہے ہدایت دے اور «اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَاءُ» (28-القصص:56)، تو جسے چاہے ہدایت نہیں کر سکتا بلکہ اللہ جسے چاہے ہدایت کرتا ہے ، پس میرے بندوں میں تجھے کوئی اختیار نہیں جو حکم پہنچے اسے اوروں کو پہنچا دے تیرے ذمہ یہی ہے ۔ ممکن ہے اللہ انہیں توبہ کی توفیق دے اور برائی کے بعد وہ بھلائی کرنے لگیں اور اللہ رحیم ان کی توبہ قبول فرما لے یا ممکن ہے کہ انہیں ان کے کفرو گناہ کی بناء پر عذاب کرے تو یہ ظالم اس کے بھی مستحق ہیں ۔ صحیح بخاری میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز میں جب دوسری رکعت کے رکوع سے سر اٹھاتے اور «سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَہُ ، رَبَّنَا ولَکَ الْحَمْدُ» کہہ لیتے تو کفار پر بد دعا کرتے کہ اے اللہ فلاں فلاں پر لعنت کر اس کے بارے میں یہ آیت «لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْھِمْ اَوْ یُعَذِّبَھُمْ فَاِنَّھُمْ ظٰلِمُوْنَ» (3-آل عمران:128)نازل ہوئی (صحیح بخاری:4069) ۱؎ مسند احمد میں ان کافروں کے نام بھی آئے ہیں مثلاً حارث بن ہشام سہیل بن عمرو صفوان بن امیہ اور اسی میں ہے کہ بالآخر ان کو ہدایت نصیب ہوئی اور یہ مسلمان ہو گئے ،(سنن ترمذی:3004،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ ایک روایت میں ہے کہ چار آدمیوں پر یہ بد دعا تھی جس سے روک دیئے گئے ۔(سنن ترمذی:3005،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح)۱؎ صحیح بخاری میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی پر بد دعا کرنا یا کسی کے حق میں نیک دعا کرنا چاہتے تو رکوع کے بعد «سمع اللہ » اور «ربنا» پڑھ کر دعا مانگتے کبھی کہتے اے اللہ ! ولید بن ولید سلمہ بن ہشام عیاش بن ابو ربیعہ اور کمزور مومنوں کو کفار سے نجات دے اے اللہ قبیلہ مضر پر اپنی پکڑ اور اپنا عذاب نازل فرما اور ان پر ایسی قحط سالی بھیج جیسی یوسف کے زمانہ میں تھی یہ دعا با آواز بلند ہوا کرتی تھی اور بعض مرتبہ صبح کی نماز کے قنوت میں یوں بھی کہتے کہ اے اللہ فلاں فلاں پر لعنت بھیج اور عرب کے بعض قبیلوں کے نام لیتے تھے ۔(صحیح بخاری:4560) ۱؎ اور روایت میں ہے کہ جنگ احد میں جب آپ کے دندان مبارک شہید ہوئے چہرہ زخمی ہوا خون بہنے لگا تو زبان سے نکل کیا کہ وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ کیا ؟ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ خالق کل کی طرف سے انہیں بلاتا تھا اس وقت یہ آیت «لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْھِمْ اَوْ یُعَذِّبَھُمْ فَاِنَّھُمْ ظٰلِمُوْنَ» (3-آل عمران:128) نازل ہوئی ،(صحیح بخاری:4069) ۱؎ آپ اس غزوے میں ایک گڑھ میں گر پڑے تھے اور خون بہت نکل گیا تھا کچھ تو اس ضعف کی وجہ سے اور کچھ اس وجہ سے کہ دوہری زرہ پہنے ہوئے تھے اٹھ نہ سکے۔سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کے مولیٰ سیدنا سالم رضی اللہ عنہ پہنچے اور چہرے پر سے خون پونچھا جب افاقہ ہوا تو آپ نے یہ فرمایا اور یہ آیت نازل ہوئی۔(تفسیر ابن جریر الطبری:7811) ۱؎ پھر فرماتا ہے کہ زمین و آسمان کی ہر چیز اسی کی ہے سب اس کے غلام ہیں جسے چاہے بخشے جسے چاہے عذاب کرے متصرف وہی ہے جو چاہے حکم کرے کوئی اس پر پرشس نہیں کر سکتا وہ غفور اور رحیم ہے ۔