سورة الزمر - آیت 43

أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ شُفَعَاءَ ۚ قُلْ أَوَلَوْ كَانُوا لَا يَمْلِكُونَ شَيْئًا وَلَا يَعْقِلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

کیا انہوں نے اللہ کے سوادوسروں کو شفیع سمجھ رکھا ہے؟ آپ کہیے ( کیا یہ شفاعت کریں گے؟) اگرچہ ان کو کسی چیز کا اختیار نہ ہو اور نہ کچھ سمجھ رکھتے ہوں؟

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

مشرکین کی مذمت اللہ تعالیٰ مشرکوں کی مذمت بیان فرماتا ہے کہ ’ وہ بتوں اور معبودان باطلہ کو اپنا سفارشی اور شفیع سمجھتے ہیں ، اس کی نہ کوئی دلیل ہے نہ حجت اور دراصل انہیں نہ کچھ اختیار ہے نہ عقل و شعور ۔ نہ ان کی آنکھیں نہ ان کے کان ، وہ تو پتھر اور جمادات ہیں جو حیوانوں میں درجہا بدتر ہیں ‘ ۔ اس لیے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ ’ ان سے کہہ دو ، کوئی نہیں جو اللہ کے سامنے لب ہلا سکے آواز اٹھا سکے جب تک کہ اس کی مرضی نہ پالے اور اجازت حاصل نہ کر لے ، ساری شفاعتوں کا مالک وہی ہے ، زمین و آسمان کا بادشاہ تنہا وہی ہے ۔ قیامت کے دن تم سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ، ۔ اس وقت وہ عدل کے ساتھ تم سب میں سچے فیصلے کرے گا اور ہر ایک کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا ‘ ۔ ان کافروں کی یہ حالت ہے کہ توحید کا کلمہ سننا انہیں ناپسند ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا ذکر سن کر ان کے دل تنگ ہو جاتے ہیں ۔ اس کا سننا بھی انہیں پسند نہیں ۔ ان کا جی اس میں نہیں لگتا ۔ کفر و تکبر انہیں روک دیتا ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے «إِنَّہُمْ کَانُوا إِذَا قِیلَ لَہُمْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ یَسْتَکْبِرُونَ» (37-الصافات:35) یعنی ’ ان سے جب کہا جاتا تھا کہ اللہ ایک کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں تو یہ تکبر کرتے تھے اور ماننے سے جی چراتے تھے ‘ ۔ چونکہ ان کے دل حق کے منکر ہیں اس لیے باطل کو بہت جلد قبول کر لیتے ہیں ۔ جہاں بتوں کا اور دوسرے اللہ کا ذکر آیا ، ان کی باچھیں کھل گئیں ۔