أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ شُفَعَاءَ ۚ قُلْ أَوَلَوْ كَانُوا لَا يَمْلِكُونَ شَيْئًا وَلَا يَعْقِلُونَ
کیا انہوں نے اللہ کے سوادوسروں کو شفیع سمجھ رکھا ہے؟ آپ کہیے ( کیا یہ شفاعت کریں گے؟) اگرچہ ان کو کسی چیز کا اختیار نہ ہو اور نہ کچھ سمجھ رکھتے ہوں؟
مشرکین کی مذمت اللہ تعالیٰ مشرکوں کی مذمت بیان فرماتا ہے کہ ’ وہ بتوں اور معبودان باطلہ کو اپنا سفارشی اور شفیع سمجھتے ہیں ، اس کی نہ کوئی دلیل ہے نہ حجت اور دراصل انہیں نہ کچھ اختیار ہے نہ عقل و شعور ۔ نہ ان کی آنکھیں نہ ان کے کان ، وہ تو پتھر اور جمادات ہیں جو حیوانوں میں درجہا بدتر ہیں ‘ ۔ اس لیے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ ’ ان سے کہہ دو ، کوئی نہیں جو اللہ کے سامنے لب ہلا سکے آواز اٹھا سکے جب تک کہ اس کی مرضی نہ پالے اور اجازت حاصل نہ کر لے ، ساری شفاعتوں کا مالک وہی ہے ، زمین و آسمان کا بادشاہ تنہا وہی ہے ۔ قیامت کے دن تم سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ، ۔ اس وقت وہ عدل کے ساتھ تم سب میں سچے فیصلے کرے گا اور ہر ایک کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا ‘ ۔ ان کافروں کی یہ حالت ہے کہ توحید کا کلمہ سننا انہیں ناپسند ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا ذکر سن کر ان کے دل تنگ ہو جاتے ہیں ۔ اس کا سننا بھی انہیں پسند نہیں ۔ ان کا جی اس میں نہیں لگتا ۔ کفر و تکبر انہیں روک دیتا ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے «إِنَّہُمْ کَانُوا إِذَا قِیلَ لَہُمْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ یَسْتَکْبِرُونَ» (37-الصافات:35) یعنی ’ ان سے جب کہا جاتا تھا کہ اللہ ایک کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں تو یہ تکبر کرتے تھے اور ماننے سے جی چراتے تھے ‘ ۔ چونکہ ان کے دل حق کے منکر ہیں اس لیے باطل کو بہت جلد قبول کر لیتے ہیں ۔ جہاں بتوں کا اور دوسرے اللہ کا ذکر آیا ، ان کی باچھیں کھل گئیں ۔