أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَلَكَهُ يَنَابِيعَ فِي الْأَرْضِ ثُمَّ يُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطَامًا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ
کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا پھر زمین میں اس کے چشمے رواں ہوگئے پھر اسی پانی سے رنگ برنگ کی کھیتیاں لہلہا اٹھیں، پھر ان کی نشوونما میں ترقی ہوئی اور پوری طرح پک کر تیار ہوگئیں پھ رترقی کے بعد زوال طاری ہو اور تم دیکھتے ہو کہ ان پر زردی چھاجاتی ہے پھر وہ خشک ہو کر چورا چورا ہوجاتی ہیں بلاشبہ دانش مندوں کے لیے اس صورت حال میں بڑی ہی عبرت ہے (٩)۔
زندگی کی بہترین مثال زمین میں جو پانی ہے وہ درحقیقت آسمان سے اترا ہے ۔ جیسے فرمان ہے کہ«وَہُوَ الَّذِی أَرْسَلَ الرِّیَاحَ بُشْرًا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہِ وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَہُورًا » ۱؎ (25-الفرقان:48) ’ ہم آسمان سے پانی اتارتے ہیں یہ پانی زمین پی لیتی ہے اور اندر ہی اندر وہ پھیل جاتا ہے ۔ پھر حسب حاجت کسی چشمہ سے اللہ تعالیٰ اسے نکالتا ہے اور چشمے جاری ہو جاتے ہیں ‘ ۔ جو پانی زمین کے میل سے کھارہ ہو جاتا ہے وہ کھارہ ہی رہتا ہے ۔ اسی طرح آسمانی پانی برف کی شکل میں پہاڑوں پر جم جاتا ہے ۔ جسے پہاڑ چوس لیتے ہیں اور پھر ان میں سے جھرنے بہ نکلتے ہیں ۔ ان چشموں اور آبشاروں کا پانی کھیتوں میں پہنچتا ہے ۔ جس سے کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں جو مختلف قسم کے رنگ و بو کی اور طرح طرح کے مزے اور شکل و صورت کی ہوتی ہیں ۔ پھر آخری وقت میں ان کی جوانی بڑھاپے سے اور سبزی زردے سے بدل جاتی ہے ۔ پھر خشک ہو جاتی ہے اور کاٹ لی جاتی ہے ۔ کیا اس میں عقل مندوں کے لیے بصیرت و نصیحت نہیں ؟ کیا وہ اتنا نہیں دیکھتے کہ اسی طرح دنیا ہے ۔ آج ایک جوان اور خوبصورت نظر آتی ہے کل بڑھیا اور بدصورت ہو جاتی ہے ۔ آج ایک شخص نوجوان طاقت مند ہے کل وہی بوڑھا کھوسٹ اور کمزور نظر آتا ہے ۔ پھر آخر موت کے پنجے میں پھنستا ہے ۔ پس عقلمند انجام پر نظر رکھیں بہتر وہ ہے جس کا انجام بہتر ہو ۔ اکثر جگہ دنیا کی زندگی کی مثال بارش سے پیدا شدہ کھیتی کے ساتھ دے گئی ہے جیسے «وَاضْرِبْ لَہُم مَّثَلَ الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا کَمَاءٍ أَنزَلْنَاہُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِہِ نَبَاتُ الْأَرْضِ فَأَصْبَحَ ہَشِیمًا تَذْرُوہُ الرِّیَاحُ وَکَانَ اللہُ عَلَیٰ کُلِّ شَیْءٍ مٰقْتَدِرًا» ۱؎ (18-الکہف:45) میں ہے ۔ پھر فرماتا ہے ’ جس کا سینہ اسلام کے لیے کھل گیا ، ذرا سوچو ! جس نے رب کے پاس سے نور پا لیا وہ اور سخت سینے اور تنگ دل والا برابر ہو سکتا ہے ۔ حق پر قائم اور حق سے دور یکساں ہو سکتے ہیں ؟ ‘ جیسے فرمای ا«اَوَمَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰہُ وَجَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُہٗ فِی الظٰلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْہَا کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکٰفِرِیْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:122) ، ’ وہ شخص جو مردہ تھا ہم نے اسے زندہ کر دیا اور اسے نور عطا فرمایا جسے اپنے ساتھ لیے ہوئے لوگوں میں چل پھر رہا ہے اور یہ اور وہ جو اندھیریوں میں گھرا ہوا ہے جن سے چھٹکارا محال ہے ۔ دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ ‘ پس یہاں بھی بطور نصیحت بیان فرمایا کہ ’ جن کے دل اللہ کے ذکر سے نرم نہیں پڑتے احکام الٰہی کو ماننے کے لیے نہیں کھلتے رب کے سامنے عاجزی نہیں کرتے بلکہ سنگدل اور سخت دل ہیں ان کے لیے ویل ہے خرابی اور افسوس و حسرت ہے یہ بالکل گمراہ ہیں ‘ ۔