كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم ۚ مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ
(مسلمانو) تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لیے وجود میں لائی گئی ہے، تم نیکی کی تلقین کرتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو یہ ان کے حق میں کہیں بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ تو مومن ہیں، مگر ان کی اکثریت نافرمان ہے۔
سب سے بہتر شخص کون؟ اور سب سے بہتر امت کا اعزاز کس کو ملا؟ اللہ تعالیٰ خبر دے رہا ہے کہ امت محمدیہ تمام امتوں پر بہتر ہے صحیح بخاری شریف میں ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں تم اوروں کے حق میں سب سے بہتر ہو تو لوگوں کی گردنیں پکڑ پکڑ کر اسلام کی طرف جھکاتے ہو ،(صحیح بخاری:4557) ۱؎ اور مفسرین بھی یہی فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ تم تمام امتوں سے بہتر ہو اور سب سے زیادہ لوگوں کو نفع پہنچانے والے ہو ، ابولہب کی بیٹی سیدہ درہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ایک مرتبہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا آپ اس وقت منبر پر تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کون سا شخص بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا سب لوگوں سے بہتر وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ قاری قرآن ہو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو ، سب سے زیادہ اچھائیوں کا حکم کرنے والا سب سے زیادہ برائیوں سے روکنے والا سب سے زیادہ رشتے ناتے ملانے والا ہو ۔ (مسند احمد:431/6:ضعیف) ۱؎ ( مسند احمد ) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ وہ صحابہ ہیں جنہوں نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی ، صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت ساری امت پر مشتمل ہے ، بیشک یہ حدیث میں بھی ہے کہ سب سے بہتر میرا زمانہ ہے پھر اس کے بعد اس سے ملا ہوا زمانہ پھر اس کے بعد والا ، (صحیح بخاری:3605) ۱؎ ایک اور روایت میں ہے آیت «وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطًا لِّتَکُونُوا شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ» (2-البقرۃ:143) ۱؎ ہم نے تمہیں بہتر امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم نے اگلی امتوں کی تعداد ستر تک پہنچا دی ہے ، اللہ کے نزدیک تم ان سب سے بہتر اور زیادہ بزرگ ہو ،(سنن ترمذی:3001،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ یہ مشہور حدیث ہے امام ترمذی نے اسے حسن کہا ہے ، اس امت کی افضیلت کی ایک بڑی دلیل اس امت کے نبی کی افضیلت ہے ، آپ تمام مخلوق کے سردار تمام رسولوں سے زیادہ اکرام و عزت والے ہیں ، آپ کی شرع اتنی کامل اور اتنی پوری ہے کہ ایسی شریعت کسی نبی کو نہیں تو ظاہر بات ہے کہ ان فضائل کو سمیٹتے والی امت بھی سب سے اعلیٰ و افضل ہے ، اس شریعت کا تھوڑا سا عمل بھی اور امتوں کے زیادہ عمل سے بہتر و افضل ہے ۔ سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں وہ نعمتیں دیا گیا ہوں جو مجھ سے پہلے کوئی نہیں دیا گیا لوگوں نے پوچھا وہ کیا باتیں ہیں ، آپ نے فرمایا میری مدد رعب سے کی گئی ہے میں زمین کی کنجیاں دیا گیا ہوں ، میرا نام احمد رکھا گیا ہے ، میرے لیے مٹی پاک کی گئی ہے ، میری امت سب امتوں سے بہتر بنائی گئی ہے (مسند احمد:98/1:حسن) ۱؎ ( مسند احمد ) اس حدیث کی سند حسن ہے ،سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ میں تمہارے بعد ایک امت پیدا کرنے والا ہوں جو راحت پر حمد و شکر کریں گے اور مصیبت پر طلب ثواب اور صبر کریں گے حالانکہ انہیں حلم و علم نہ ہو گا آپ نے تعجب سے پوچھا کہ بغیر بردباری اور دور اندیشی اور پختہ علم کے یہ کیسے ممکن ہے ؟ رب العالمین نے فرمایا میں انہیں اپنا حلم و علم عطا فرماؤں گا ، (مسند احمد:450/6:ضعیف) ۱؎ میں چاہتا ہوں یہاں پر بعض وہ حدیثیں بھی بیان کر دوں جن کا ذکر یہاں مناسب ہے سنئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری امت میں سے ستر ہزار شخص بغیر حساب کتاب کے جنت میں جائیں گے جن کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے سب یک رنگ ہونگے ، میں نے اپنے رب سے گزارش کی کہ اے اللہ اس تعداد میں اور اضافہ فرما اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہر ایک کے ساتھ ستر ہزار اور بھی ، سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کر کے فرمایا کرتے تھے کہ پھر تو اس تعداد میں گاؤں اور دیہاتوں والے بلکہ بادیہ نشین بھی آ جائیں گے (مسند احمد:6/1:ضعیف) ۱؎ ( مسند احمد ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے میرے رب نے ستر ہزار آدمیوں کو میری امت میں سے بغیر حساب کے جنت میں داخل ہونے کی خوشخبری دی ،سیدنا عمر نے یہ سن کر فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ اور زیادتی طلب کرتے آپ نے فرمایا میں نے اپنے رب سے سوال کیا تو مجھے خوشخبری ملی کہ ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار اور ہوں گے۔ سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم برکت کی دعا کرتے آپ نے فرمایا میں نے پھر کی ت ہر شخص کے ساتھ ستر ہزار کا وعدہ ہوا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پھر گزارش کی کہ اللہ کے نبی اور کچھ بھی مانگتے آپ نے فرمایا مانگا تو مجھے اتنی زیادتی اور ملی اور پھر دونوں ہاتھ پھیلا کر بتایا کہ اس طرح ، راوی حدیث کہتے ہیں اس طرح جب اللہ تعالیٰ سمیٹے تو اللہ عزوجل ہی جانتا ہے کہ کس قدر مخلوق اس میں آئے گی ۔ ( فسبحان اللہ وبحمدہ ) (مسند احمد:197/1:ضعیف) ۱؎ ( مسند احمد ) سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ حمص میں بیمار ہو گئے عبداللہ بن قرط وہاں کے امیر تھے وہ عیادت کو نہ آ سکے ایک کلاعی شخص جب آپ کی بیمار پرسی کیلئے گیا تو آپ نے اس سے دریافت کیا کہ لکھنا جانتے ہو اس نے کہا ہاں فرمایا لکھو یہ خط ثوبان کی طرف سے امیر عبداللہ بن قرط کی طرف سے ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم ہیں بعد حمد و صلوٰۃ کے! واضح ہو کہ اگر سیدنا عیسیٰ یا سیدنا موسیٰ علیہما السلام کا کوئی خادم یہاں ہوتا اور بیمار پڑتا تو تم عیادت کیلئے جاتے پھر کہا یہ خط لے جاؤ اور امیر کو پہنچا دو جب یہ خط امیر حمص کے پاس پہنچا تو گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے اور سیدھے یہاں تشریف لائے کچھ دیر بیٹھ کر عیادت کر کے جب جانے کا ارادہ کیا تو سیدنا ثوبانرضی اللہ عنہ نے ان کی چادر پکڑ روکا اور فرمایا ایک حدیث سنتے جائیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنا ہے آپ نے فرمایا میری امت میں سے ستر ہزار شخص بغیر حساب و عذاب کے جنت میں جائیں گے ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار اور ہوں گے (مسند احمد:280/5:صحیح لغیرہ) ۱؎ ( مسند احمد ) یہ حدیث بھی صحیح ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک رات ہم خدمت نبوی میں دیر تک باتیں کرتے رہے پھر صبح جب حاضر خدمت ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سنو آج رات انبیاء اپنی اپنی امت سمیت مجھے دکھائے گئے بعض انبیاء کے ساتھ صرف تین شخص تھے بعض کے ساتھ مختصر سا گروہ بعض کے ساتھ ایک جماعت کسی کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا جب موسیٰ علیہ السلام آئے تو ان کے ساتھ بہت سے لوگ تھے مجھے یہ جماعت پسند آئی میں نے پوچھا یہ کون ہیں تو جواب ملا کہ یہ آپ کے بھائی موسیٰ علیہ السلام ہیں اور ان کے ساتھ بنی اسرائیل ہیں میں نے کہا پھر میری امت کہاں ہے جواب ملا اپنی داہنی طرف دیکھو اب جو دیکھتا ہوں تو بےشمار مجمع ہے جس سے پہاڑیاں بھی ڈھک گئی ہیں اب مجھ سے پوچھا گیا کہو خوش ہو میں نے کہا میرے رب میں راضی ہو گیا ، فرمایا گیا سنو ! ان کے ساتھ ستر ہزار اور ہیں جو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے ، اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم پر میرے میں باپ فدا ہوں اگر ہو سکے تو ان ستر ہزار میں سے ہی ہونا اگر یہ نہ ہو سکے تو ان میں سے ہو جو پہاڑیوں کو چھپائے ہوئے تھے اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو ان میں سے ہونا جو آسمان کے کناروں کناروں پر تھے ، سیدنا عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان ستر ہزار میں سے کرے آپ نے دعا کی تو ایک دوسرے صحابی نے بھی اٹھ کر یہی گزارش کی تو آپ نے فرمایا تم پر سیدنا عکاشہ رضی اللہ عنہ سبقت کر گئے ۔ ہم اب آپس میں کہنے لگے کہ شاید یہ ستر ہزار لوگ ہوں گے جو اسلام پر ہی پیدا ہوئے ہوں اور پوری عمر میں کبھی اللہ کے ساتھ شرک کیا ہی نہ ہو آپ کو جب یہ معلوم ہوا تو فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو دم جھاڑا نہیں کراتے آگ کے داغ نہیں لگواتے شگون نہیں لیتے اور اپنے رب پر پورا بھروسہ رکھتے ہیں (مسند احمد:401/1:صحیح) ۱؎ ( مسند احمد ) ایک اور سند سے اتنی زیادتی اس میں اور بھی ہے جب میں نے اپنی رضا مندی ظاہر کی تو مجھ سے کہا گیا اب اپنی بائیں جانب دیکھو میں نے دیکھا تو بےشمار مجمع ہے جس نے آسمان کے کناروں کو بھی ڈھک لیا ہے (مسند احمد:401/1:صحیح) ۱؎ ایک اور روایت میں ہے کہ موسم حج کا یہ واقعہ ہے آپ فرماتے ہیں مجھے اپنی امت کی یہ کثرت بہت پسند آئی تمام پہاڑیاں اور میدان ان سے پُر تھے (مسند احمد:445/1:صحیح) ۱؎ ( مسند احمد ) ایک اور روایت میں ہے کہ سیدنا عکاشہرضی اللہ عنہ کے بعد کھڑے ہونے والے ایک انصاری رضی اللہ عنہ تھے(صحیح بخاری:5811) ۱؎ ( طبرانی ) ایک اور روایت میں ہے کہ میری امت میں سے ستر ہزار یا ساٹھ لاکھ آدمی جنت میں جائیں گے جو ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے ہوں گے سب ایک ساتھ جنت میں جائیں گے چمکتے ہوئے چودھویں رات کے چاند جیسے ان کے چہرے ہوں گے ۔(صحیح بخاری:6543) ۱؎ ( بخاری مسلم طبرانی ) حصین بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سعید بن جیبر رحمہ اللہ کے پاس تھا تو آپ نے دریافت کیا رات کو جو ستارہ ٹوٹا تھا تم میں سے کسی نے دیکھا تھا میں نے کہا ہاں حضرت میں نے دیکھا تھا یہ نہ سمجھئے گا کہ میں نماز میں تھا بلکہ مجھے بچھو نے کاٹ کھایا تھا سعید نے پوچھا پھر تم نے کیا کیا میں نے کہا دم کر دیا تھا کہا کیوں میں نے کہا سیدنا شعبی رحمہ اللہ نے بریدہ بن حصیب کی روایت سے حدیث بیان کی ہے کہ نظربد اور زہریلے جانوروں کا دم جھاڑا کرانا ہے کہنے لگے خیر جسے جو پہنچے اس پر عمل کرے ہمیں تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سنایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ پر امتیں پیش کی گئیں کسی نبی کے ساتھ ایک جماعت تھی کسی کے ساتھ ایک شخص اور دو شخص اور کسی نبی کے ساتھ کوئی نہ تھا اب جو دیکھا کہ ایک بڑی جماعت پر نظر پڑی میں سمجھا یہ تو میری امت ہو گی پھر معلوم ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام کی امت ہے مجھ سے کہا گیا آسمان کے کناروں کی طرف دیکھو میں نے دیکھا تو وہاں بےشمار لوگ تھے مجھ سے کہا گیا یہ آپ کی امت ہے اور ان کے ساتھ ستر ہزار اور ہیں جو بے حساب اور بےعذاب جنت میں جائیں گے یہ حدیث بیان فرما کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو مکان پر چلے گئے اور صحابہ آپس میں کہنے لگے شاید یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہوں گے کسی نے کہا نہیں اسلام میں پیدا ہونے والے اور اسلام پر ہی مرنے والے ہوں گے وغیرہ وغیرہ آپ تشریف لائے اور پوچھا کیا باتیں کر رہے ہو ہم نے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا نہیں یہ وہ لوگ ہیں جو نہ دم جھاڑا کریں نہ کرائیں ، نہ داغ لگوائیں نہ شگون لیں بلکہ اپنے رب پر بھروسہ رکھیں سیدنا عکاشہ رضی اللہ عنہ نے دعا کی درخواست کی آپ نے دعا کی یا اللہ تو اسے ان میں سے ہی بنا ۔ پھر دوسرے شخص نے بھی یہی کہا آپ نے فرمایا عکاشہ رضی اللہ عنہ آگے بڑھ گئے ،(صحیح بخاری:6541) ۱؎ یہ حدیث بخاری میں ہے لیکن اس میں دم جھاڑا نہیں کرنے کا لفظ نہیں صحیح مسلم میں بھی یہ لفظ ہے ۔ ایک اور مطول حدیث میں ہے کہ پہلی جماعت تو نجات پائے گی ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے ان سے حساب بھی نہ لیا جائے گا پھر ان کے بعد والے سب سے زیادہ روشن ستارے جیسے چمکدار چہرے والے ہوں گے (صحیح مسلم:191) ۱؎ ( مسلم ) آپ فرماتے ہیں مجھ سے میرے رب کا وعدہ ہے کہ میری امت میں سے ستر ہزار شخص بغیر حساب و عذاب کے داخل بہشت ہوں گے ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار ہوں گے اور تین لپیں اور میرے رب عزوجل کی لپوں سے (سنن ترمذی:2438،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ ( کتاب السنن لحافظ ابی بکر بن عاصم ) اس کی اسناد بہت عمدہ ہے ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ سے ستر ہزار کی تعداد سن کر یزید بن اخنس رضی اللہ عنہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو آپ کی امت کی تعداد کے مقابلہ میں بہت ہی تھوڑے ہیں تو آپ نے فرمایا ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار ہیں اور پھر اللہ نے تین لپیں ( ہتھیلیوں کا کشکول ) بھر کر اور بھی عطا فرمائے ہیں ، اس کی اسناد بھی حسن ہے (مسند احمد:250/5:حسن) ۱؎ ( کتاب السنن ) اور ایک اور حدیث میں ہے کہ میرے رب نے جو عزت اور جلال والا ہے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ میری امت میں سے ستر ہزار کو بلا حساب جنت میں لے جائے گا پھر ایک ایک ہزار کی شفاعت سے ستر ستر ہزار آدمی اور جائیں گے پھر میرا رب اپنے دونوں ہاتھوں سے تین لپیں ( دونوں ہاتھوں کی ہھتیلیوں کو ملا کر کٹورا بنانا ) بھر کر اور ڈالے گا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر خوش ہو کر اللہ اکبر کہا اور فرمایا کہ ان کی شفاعت ان کے باپ دادوں اور بیٹوں اور بیٹیوں اور خاندان و قبیلہ میں ہو گی اللہ کرے میں تو ان میں سے ہو جاؤں جنہیں اللہ تعالیٰ اپنی لپوں میں بھر کر آخر میں جنت میں لے جائے گا (طبرانی کبیر:771/22:صحیح) ۱؎ ( طبرانی ) اس حدیث کی سند میں بھی کوئی علت نہیں ۔ واللہ اعلم کدید میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث فرمائی جس میں جنت میں یہ بھی فرمایا یہ ستر ہزار جو بلا حساب جنت میں داخل کئے جائیں گے میرا خیال ہے کہ ان کے آتے آتے تو تم اپنے لیے اور اپنے بال بچوں اور بیویوں کیلئے جنت میں جگہ مقرر کر چکے ہوگے (مسند احمد:16/4:صحیح) ۱؎ ( مسند احمد ) اس کی سند بھی شرطِ مسلم پر ہے ، ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا وعدہ ہے کہ میری امت میں سے چار لاکھ آدمی جنت میں جائیں گے ، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ اور زیادہ کیجئے اسے سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ابوبکر بس کرو سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کیوں صاحب اگر ہم سب کے سب جنت میں چلے جائیں گے تو آپ کو کیا نقصان ہے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر اللہ چاہے تو ایک ہی ہاتھ میں ساری مخلوق کو جنت میں ڈال دے حضور علیہ السلام نے فرمایا عمر رضی اللہ عنہ سچ کہتے ہیں (مسند احمد:165/3:صحیح) ۱؎ ( مسند عبدالرزاق ) اسی حدیث کی اور سند سے بھی بیان ہے اس میں تعداد ایک لاکھ آئی ہے (مسند احمد:193/3:صحیح) ۱؎ ( اصبہانی ) ایک اور روایت میں ہے کہ جب صحابہ نے ستر ہزار اور پھر ہر ایک کے ساتھ ستر ہزار پھر اللہ کی لپ بھر کر جنتی بنانا سنا تو کہنے لگے پھر تو اس کی بدنصیبی میں کیا شک رہ گیا جو باوجود اس کے بھی جہنم میں جائے (ابو یعلی:3783:صحیح) ۱؎ ( ابویعلیٰ ) اوپر والی حدیث ایک اور سند سے بھی بیان ہوئی ہے اس میں تعداد تین لاکھ کی ہے پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کا بیان ہے (طبرانی کبیر:64/17:ضعیف) ۱؎ ( طبرانی ) ایک اور حدیث میں جنت میں جانے والوں کا ذکر کر کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کے سارے مہاجر تو اس میں آ ہی جائیں گے پھر باقی تعداد اعرابیوں سے پوری ہو گی (مسند احمد:359/2) ۱؎ ( محمد بن سہل ) سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حساب کیا گیا تو جملہ تعداد چار کروڑ نوے ہزار ہوئی ، ایک اور حسن حدیث طبرانی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے تم ایک اندھیری رات کی طرح بےشمار ایک ساتھ جنت کی طرف بڑھو گے ، زمین تم سے پر ہو جائے گی تمام فرشتے پکار اٹھیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو جماعت آئی وہ تمام نبیوں کی جماعت سے بہت زیادہ ہے (طبرانی:3455:ضعیف) ۱؎ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا صرف میری تابعدار امت اہل جنت کی چوتھائی ہو گی صحابہ نے خوش ہو کر نعرہ تکبیر بلند کیا پھر فرمایا کہ مجھے تو امید ہے کہ تم اہل جنت کا تیسرا حصہ ہو جاؤ ہم نے پھر تکبیر کہی پھر فرمایا میں امید کرتا ہوں کہ تم آدھوں آدھ ہو جاؤ (مسند احمد:383/3:صحیح) ۱؎ ( مسند احمد ) اور حدیث میں ہے کہ آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ تم راضی نہیں ہو کہ تم تمام جنتوں کے چوتھائی ہو ہم نے خوش ہو کر اللہ کی بڑائی بیان کی پھر فرمایا کہ تم راضی نہیں ہو کہ تمام اہل جنت کی تہائی ہو ہم نے پھر تکبیر کہی آپ نے فرمایا مجھے تو امید ہے کہ تم جنتیوں کے آدھوں آدھ ہو گے (صحیح بخاری:6568) ۱؎ ( بخاری مسلم ) طبرانی میں یہ روایت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا کہتے ہو تم جنتیوں کا چوتھائی حصہ بننا چاہتے ہو کہ چوتھائی جنت تمہارے پاس ہو اور تین چوتھائیوں میں تمام اور امتیں ہوں ؟ ہم نے کہا اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے آپ نے فرمایا اچھا تہائی حصہ ہو تو ہم نے کہا یہ بہت ہے فرمایا اگر آدھوں آدھ ہو تو ، انہوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر تو بہت ہی زیادہ ہے آپ نے فرمایا سنو ! کل اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ہیں جن میں سے اسی (80) صفیں صرف اس میری امت کی ہیں(مسند احمد:453/1:صحیح بالشواھد) ۱؎ ، مسند احمد میں بھی ہے کہ اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ان میں اسی (80) صفیں صرف اس امت کی ہیں یہ حدیث طبرانی ترمذی وغیرہ میں بھی ہے (سنن ترمذی:2546،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ طبرانی ایک اور روایت میں ہے کہ جب آیت «ثُلَّۃٌ مِّنَ الْأَوَّلِینَ ـ وَثُلَّۃٌ مِّنَ الْآخِرِینَ» (56-الواقعۃ:39) اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اہل جنت کی چوتھائی ہو پھر فرمایا بلکہ ثلث ہو پھر فرمایا بلکہ نصف ہو پھر فرمایا دو تہائی ہو (مسند احمد:391/2:صحیح) ۱؎ ( اے وسیع رحمتوں والے اور بے روک نعمتوں والے اللہ ہم تیرا بے انتہا شکر ادا کرتے ہیں کہ تو نے ہمیں ایسے معزز و محترم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں پیدا کیا تیرے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی زبان سے تیرے اس بڑھے چڑھے فضل و کرم کا حال سن کر ہم گنہگاروں کے منہ میں پانی بھر آیا ، اے ماں باپ سے زیادہ مہربان اللہ ! ہماری آس نہ توڑ اور ہمیں بھی ان نیک ہستیوں کے ساتھ جنت میں داخل فرما ۔ اللہ اس پاک ذکر کے موقع پر ہم ہاتھ اٹھا کر ، دامن پھیلا کر آنسو بہا کر ، امیدوں بھرے دل سے تیری رحمت کا سہارا لے کر ، تیرے کرم کا دامن تھام کر تجھ سے بھیک مانگتے ہیں تو قبول فرما اور اپنی رحمت سے ہمیں اپنی رضامندی کا گھر جنت الفردوس عطا فرما ۔ آمین الہ الحق آمین) صحیح بخاری مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہم دنیا میں سب سے آخر آئے اور جنت میں سب سے پہلے جائیں گے اور ان کو کتاب اللہ پہلے ملی ہمیں بعد میں ملی جن باتوں میں انہوں نے اختلاف کیا ان میں اللہ نے ہمیں صحیح طریق کی توفیق دی ، جمعہ کا دن بھی ایسا ہی ہے کہ یہود ہمارے پیچھے ہیں ہفتہ کے دن اور نصرانی ان کے پیچھے اتوار کے دن ۔ (صحیح بخاری:876) ۱؎ دارقطنی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک میں جنت میں داخل نہ ہو جاؤں انبیاء پر دخول جنت حرام ہے اور جب تک میری امت نہ داخل ہو دوسری امتوں پر دخول جنت حرام ہے ۔ (ابن عدی:129/4:ضعیف) ۱؎ یہ وہ حدیثیں تھیں جنہیں ہم اس آیت کے تحت وارد کرنا چاہتے تھے فالحمدللہ ۔ امت کو بھی چاہیئے کہ یہاں اس آیت میں جتنی صفتیں ہیں ان پر مضبوطی کے ساتھ قائم ثابت رہیں یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور ایمان باللہ ۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے حج میں اس آیت کی تلاوت فرما کر لوگوں سے کہا کہ اگر تم اس آیت کی تعریف میں داخل ہونا چاہتے ہو تو یہ اوصاف بھی اپنے میں پیدا کرو ، امام ابن جریدرحمہ اللہ فرماتے ، اہل کتاب ان کاموں کو چھوڑ بیٹھے تھے جن کی مذمت کلام اللہ نے کی ، فرمایا آیت «کَانُواْ لاَ یَتَنَاہَوْنَ عَن مٰنکَرٍ فَعَلُوہُ» (5-المائدۃ:79) وہ لوگ برائی کی باتوں سے لوگوں کو روکتے نہ تھے چونکہ مندرجہ بالا آیت میں ایمان داروں کی تعریف و توصیف بیان ہوئی تو اس کے بعد اہل کتاب کی مذمت بیان ہو رہی ہے ، تو فرمایا کہ اگر یہ لوگ بھی میرے نبی آخر الزمان پر ایمان لاتے تو انہیں بھی یہ فضیلتیں ملتیں لیکن ان میں سے کفرو فسق اور گناہوں پر جمے ہوئے ہیں ہاں کچھ لوگ با ایمان بھی ہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بشارت دیتا ہے کہ تم نہ گھبرانا اللہ تمہیں تمہارے مخالفین پر غالب رکھے گا چنانچہ خیبر والے دن اللہ تعالیٰ نے انہیں ذلیل کیا اور ان سے پہلے بنو قینقاع ، بنو نضیر اور بنو قریظہ کو بھی اللہ نے ذلیل و رسوا کیا ، اسی طرح شام کے نصرانی صحابہ رضی اللہ عنہم کے وقت میں مغلوب ہوئے اور ملک شام ان کے ہاتھوں سے نکل گیا اور ہمیشہ کیلئے مسلمانوں کے قبضہ میں آ گیا اور وہاں ایک حق والی جماعت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے تک حق پر قائم رہے گی ، سیدنا عیسیٰ آ کر ملت اسلام اور شریعت محمد کے مطابق حکم کریں گے صلیب توڑیں گے خنزیر کو قتل کریں گے جزیہ قبول نہ کریں گے صرف اسلام ہی قبول فرمائیں گے پھر فرمایا کہ ان کے اوپر ذلت اور پستی ڈال دی گئی ہاں اللہ کی پناہ کے علاوہ کہیں بھی امن و امان اور عزت نہیں یعنی جزیہ دینا اور مسلم بادشاہ کی اطاعت کرنا قبول کر لیں اور لوگوں کی پناہ یعنی عقد ذمہ مقرر ہو جائے یا کوئی مسلمان امن دیدے اگرچہ کوئی عورت ہو یا کوئی غلام ہو ، علماء کا ایک قول یہ بھی ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ «حبل» سے مراد عہد ہے (تفسیر ابن جریر الطبری:112/7) ۱؎ جو غضب کے مستحق ہوئے اور مسکینی چپکا دی گئی ، ان کے کفر اور انبیاء سے تکبر ، حسد ، سرکشی وغیرہ کا بدلہ ہے ۔ اسی باعث ان پر ذلت پستی اور مسکینی ہمیشہ کیلئے ڈال دی گئی ان کی نافرمانیوں اور تجاوز حق کا یہ بدلہ ہے العیاذ باللہ ، ابوداؤد طیالسی میں حدیث ہے کہ بنی اسرائیل ایک ایک دن میں تین تین سو نبیوں کو قتل کر ڈالتے تھے اور دن کے آخری حصہ میں اپنے اپنے کاموں پر بازاروں میں لگ جاتے تھے ۔