يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ
اس دن جب کچھ چہرے چمکتے ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ پڑجائیں گے۔ چنانچہ جن لوگوں کے چہرے سیاہ پڑجائیں گے ان سے کہا جائے گا کہ : کیا تم نے اپنے ایمان کے بعد کفر اختیار کرلیا؟ (٣٦) لو پھر اب مزہ چکھو اس عذاب کا، کیونکہ تم کفر کیا کرتے تھے۔
خوارج کا انجام پھر فرمایا اس دن سفید چہرے اور سیاہ منہ بھی ہونگے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ اہل سنت و الجماعت کے منہ سفید اور نورانی ہونگے مگر اہل بدعت و منافقت کے کالے منہ ہونگے ، حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ کالے منہ والے منافق ہونگے جن سے کہا جائے گا کہ تم نے ایمان کے بعد کفر کیوں کیا اب اس کا مزہ چکھو ۔(تفسیر ابن ابی حاتم:465/2) ۱؎ اور سفید منہ والے اللہ رحیم و کریم کی رحمت میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے جب خارجیوں کے سر دمشق کی مسجد کے زینوں پر لٹکے ہوئے دیکھے تو فرمانے لگے یہ جہنم کے کتے ہیں ان سے بدتر مقتول روئے زمین پر کوئی نہیں انہیں قتل کرنے والے بہترین مجاہد ہیں پھر آیت «یوم تبیض» تلاوت فرمائی ، ابوغالب نے کہا کہ جناب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے ؟ فرمایا ایک دو دفعہ نہیں بلکہ سات مرتبہ اگر ایسا نہ ہوتا تو میں اپنی زبان سے یہ الفاظ نکالتا ہی نہیں ،(سنن ترمذی:3000،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ ابن مردویہ نے یہاں سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی روایت سے ایک لمبی حدیث نقل کی ہے جو بہت ہی عجیب ہے لیکن سنداً غریب ہے ۔ دنیا اور آخرت کی یہ باتیں ہم تم پر اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھول رہے ہیں اللہ عادل حاکم ہے وہ ظالم نہیں اور ہر چیز کو خوب جانتا ہے اور ہر چیز پر قدرت بھی رکھتا ہے پھر ناممکن ہے کہ وہ کسی پر ظلم کرے ( جن کے کالے منہ ہوئے وہ اسی لائق تھے ) زمین اور آسمان کی کل چیزیں اس کی ملکیت میں ہیں اور اسی کی غلامی میں اور ہر کام کا آخری حکم اسی کی طرف ہے متصرف اور با اختیار حکم دنیا اور آخرت کا مالک وہی ہے ۔