إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَّن تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الضَّالُّونَ
(اس کے برخلاف) جن لوگوں نے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کیا، پھر کفر میں بڑھتے ہی چلے گئے، ان کی توبہ ہرگز قبول نہ ہوگی۔ (٣١) ایسے لوگ راستے سے بالکل ہی بھٹک چکے ہیں۔
جب سانس ختم ہونے کو ہوں تو توبہ قبول نہیں ہو گی ایمان کے بعد پھر اسی کفر پر مرنے والوں کو پروردگار عالم ڈرا رہا ہے کہ موت کے وقت تمہاری توبہ قبول نہیں ہو گی جیسے اور جگہ ہے «وَلَیْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّـیِّاٰتِ حَتّٰی اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّیْ تُبْتُ الْــٰٔنَ وَلَا الَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَھُمْ کُفَّارٌ اُولٰیِٕکَ اَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَابًا اَلِـــیْمًا» (4-النساء:18) آخر دم تک یعنی موت کے وقت تک گناہوں میں مبتلا رہنے والے موت کو دیکھ کر جو توبہ کریں وہ اللہ کے ہاں قبول نہیں اور یہی یہاں ہے کہ ان کی توبہ ہرگز مقبول نہ ہو گی اور یہی لوگ وہ ہیں جو راہ حق سے بھٹک کر باطل راہ پر لگ گئے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ مسلمان ہوئے پھر مرتد ہو گئے پھر اسلام لائے پھر مرتد ہو گئے پھر اپنی قوم کے پاس آدمی بھیج کر بچھوایا کہ کیا اب ہماری توبہ ہے ؟ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا اس پر یہ آیت اتری ( بزار ) اس کی اسناد بہت عمدہ ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ کفر پر مرنے والوں کی کوئی نیکی قبول نہیں گو اس نے زمین بھر کر سونا اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہو ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ عبداللہ بن جدعان جو بڑا مہمان نواز غلام آزاد کرنے والا اور کھانا پینا دینے والا شخص تھا کیا اسے اس کی یہ نیکی کام آئے گی ؟ تو آپ نے فرمایا نہیں اس نے ساری عمر میں ایک دفعہ بھی «رَبِّ اغْفِر لِی خَطِیئَتِی یَوْمَ الدِّین» نہیں کہا (صحیح مسلم:214) ۱؎ یعنی اے میرے رب میری خطاؤں کو قیامت والے دن بخش جس طرح اس کی خیرات نامقبول ہے اسی طرح فدیہ اور معاوضہ بھی ، جیسے اور جگہ ہے «وَّلَا یُقْبَلُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلَا تَنْفَعُہَا شَفَاعَۃٌ وَّلَا ھُمْ یُنْصَرُوْنَ» (2-البقرۃ:123) ان سے نہ بدلہ مقبول نہ انہیں سفارش کا نفع اور فرمایا «لَّا بَیْعٌ فِیْہِ وَلَا خِلٰلٌ» (14-إبراہیم:31) اس دن نہ خرید فروخت نہ موت و محبت اور جگہ ارشاد ہے «إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا لَوْ أَنَّ لَہُم مَّا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا وَمِثْلَہُ مَعَہُ لِیَفْتَدُوا بِہِ مِنْ عَذَابِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ مَا تُقُبِّلَ مِنْہُمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ» (5-المائدۃ:36) یعنی اگر کافروں کے پاس زمین میں جو کچھ ہے اور اتنا ہی اور بھی ہو پھر وہ اس سب کو قیامت کے عذابوں کے بدلے فدیہ دیں تو بھی نامقبول ہے ان تکلیف والے الم ناک عذابوں کو سہنا پڑے گا ، یہی مضمون یہاں بھی بیان فرمایا گیا ہے بعض نے «وَلَوِ افْتَدَی» کی واؤ کو زائد کہا ہے لیکن واؤ کو عطف کی ماننا اور وہ تفسیر کرنا جو ہم نے کی بہت بہتر ہے واللہ اعلم ، پس ثابت ہوا کہ اللہ کے عذاب سے کفار کو کوئی چیز نہیں چھڑا سکتی چاہے وہ بڑے نیک اور نہایت سخی ہوں گو زمین بھربھر کر سونا راہ اللہ لٹائیں یا پہاڑوں اور ٹیلوں کی مٹی اور ریت نرم زمین اور سخت زمین کی خشکی اور تری کے ہم وزن سونا عذاب کے بدلے دینا چاہیں یا دیں ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جہنمی سے قیامت کے دن کہا جائے گا کہ زمین پر جو کچھ ہے اگر تیرا ہو جائے تو کیا تو اس کو ان سزاؤں کے بدلے اپنے فدیے میں دے ڈالے گا ۔ وہ کہے گا ہاں تو جناب باری کا ارشاد ہو گا کہ میں نے تجھ سے بہ نسبت اس کے بہت ہی کم چاہا تھا ، میں نے تجھ سے اس وقت وعدہ لیا تھا جب تو اپنے باپ آدم علیہ السلام کی پیٹھ میں تھا کہ میرے ساتھ کسی کو شرک نہ بنانا لیکن تو شرک کئے بغیر نہ رہا ۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی دوسری سند کے ساتھ ہے ۔(صحیح بخاری:3334) ۱؎ مسند احمد کی ایک اور حدیث میں ہے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک ایسے جنتی کو لایا جائے گا جس سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہو تم نے کیسی جگہ پائی ؟ وہ جواب دے گا اللہ بہت ہی بہتر ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اچھا اور کچھ مانگنا ہو تو مانگو دل میں جو تمنا ہو کہو تو یہ کہے گا باری تعالیٰ میری صرف یہی تمنا ہے اور میرا یہی ایک سوال ہے کہ مجھے دنیا میں پھر بھیج دیا جائے میں تیری راہ میں جہاد کروں اور پھر شہید کیا جاؤں پھر زندہ ہو جاؤں پھر شہید کیا جاؤں دس مرتبہ ایسا ہی ہو کیونکہ وہ شہادت کی فضیلت اور شہید کے مرتبے دیکھ چکا ہو گا اسی طرح ایک جہنمی کو بلایا جائے گا اور اس سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا ۔ اے ابن آدم تو نے اپنی جگہ کیسی پائی ؟ وہ کہے گا اللہ بہت ہی بری ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا ساری زمین بھر کر سونا دے کر ان عذابوں سے چھوٹنا تجھے پسند ہے ؟ وہ کہے گا ہاں اے باری تعالیٰ اس وقت جناب باری تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے میں نے تو اس سے بہت ہی کم اور بالکل آسان چیز تجھ سے طلب کی تھی لیکن تو نے اسے بھی نہ کیا چنانچہ وہ جہنم میں بھیج دیا جائے گا ، (مسند احمد:207/3:صحیح) ۱؎ پس یہاں فرمایا ان کے لیے تکلیف دہ عذاب ہیں اور ایسا نہیں جو ان عذابوں سے اپنے آپ کو چھڑا سکے یا کوئی ان کی کس طرح مدد کر سکے ( اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے عذاب سے نجات دے ۔ آمین )