سورة يس - آیت 45

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّقُوا مَا بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَمَا خَلْفَكُمْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم اس (عذاب) سے بچو جو تمہارے سامنے ہے اور جو تمہارے پیچھے ہے تاکہ تم پر رحم کیا جائے (تو وہ کچھ پرواہ نہیں کرتے

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

کفار کا تکبر کافروں کی سرکشی نادانی اور عناد تکبر بیان ہو رہا ہے کہ جب ان سے گناہوں سے بچنے کو کہا جاتا ہے کہ جو کر چکے ان پر نادم ہو جاؤ ان سے توبہ کر لو اور آئندہ کے لیے ان سے احتیاط کرو ۔ اس سے اللہ تم پر رحم فرمائے گا اور تمہیں اپنے عذابوں سے بچا لے گا ۔ تو وہ اس پر کار بند ہونا تو درکنار ایک طرف اور منہ پھلا لیتے ہیں ، قرآن نے اس جملے کو بیان نہیں فرمایا کیونکہ آگے جو آیت ہے وہ اس پر صاف طور سے دلالت کرتی ہے ۔ اس میں ہے کہ یہی ایک بات کیا ؟ ان کی تو عادت ہو گئی ہے کہ اللہ کی ہر بات سے منہ پھیر لیں ۔ نہ اس کی توحید کو مانتے ہیں نہ رسولوں کو سچا جانتے ہیں نہ ان میں غور و خوض کی عادت نہ ان میں قبولیت کا مادہ ، نہ نفع کو حاصل کرنے کا ملکہ ۔ ان کو جب کبھی اللہ کی راہ میں خیرات کرنے کو کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو تمہیں دیا ہے اس میں فقراء مساکین اور محتاجوں کا حصہ بھی ہے ۔ تو یہ جواب دیتے ہیں کہ اگر اللہ کا ارادہ ہوتا تو ان غریبوں کو خود ہی دیتا ، جب اللہ ہی کا ارادہ انہیں دینے کا نہیں تو ہم اللہ کے ارادے کے خلاف کیوں کریں ؟ تم جو ہمیں خیرات کی نصیحت کر رہے ہو اس میں بالکل غلطی پر ہو ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ پچھلہ جملہ کفار کی تردید میں اللہ کی طرف سے ہو ۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان کفار سے فرما رہا ہے کہ تم کھلی گمراہی میں ہو لیکن ان سے یہی اچھا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی کفار کے جواب کا حصہ ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»