وَمِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ إِن تَأْمَنْهُ بِقِنطَارٍ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ وَمِنْهُم مَّنْ إِن تَأْمَنْهُ بِدِينَارٍ لَّا يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ إِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَائِمًا ۗ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْأُمِّيِّينَ سَبِيلٌ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
اہل کتاب میں کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ اگر تم ان کے پاس دولت کا ایک ڈھیر بھی امانت کے طور پر رکھوا دو تو وہ تمہیں واپس کردیں گے، اور انہی میں سے کچھ ایسے ہیں کہ اگر ایک دینار کی امانت بھی ان کے پاس رکھواؤ تو وہ تمہیں واپس نہیں دیں گے، الا یہ کہ تم ان کے سر پر کھڑے رہو۔ ان کا یہ طرز عمل اس لیے ہے کہ انہوں نے یہ کہہ رکھا ہے کہ : امیوں ( یعنی غیر یہودی عربوں) کے ساتھ معاملہ کرنے میں ہماری کوئی پکڑ ہیں ہوگی۔ اور (اس طرح) وہ اللہ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھتے ہیں۔
بددیانت یہودی اللہ تعالیٰ مومنوں کو یہودیوں کی خیانت پر تنبیہہ کرتا ہے کہ ان کے دھوکے میں نہ آ جائیں ان میں بعض تو امانتدار ہیں اور بعض بڑے خائن ہیں بعض تو ایسے ہیں کہ خزانے کا خزانہ ان کی امانت میں ہو تو جوں کا توں حوالے کر دیں گے پھر چھوٹی موٹی چیز میں وہ بددیانتی کیسے کریں گے ؟ اور بعض ایسے بددیانت ہیں کہ ایک دینار بھی واپس نہ دیں گے ہاں اگر ان کے سر ہو جاؤ تقاضا برابر جاری رکھو اور حق طلب کرتے رہو تو شاید امانت نکل بھی آئے ورنہ ہضم بھی کر جائیں جب ایک دینار پر بد دیانتی ہے تو بڑی رقم کو کیوں چھوڑنے لگے لفظ قنطار کی پوری تفسیر سورت کے اول میں ہی بیان ہو چکی ہے اور دینار تو مشہور ہی ہے ، ابن ابی حاتم میں سیدنا مالک بن دینار رحمہ اللہ کا قول مروی ہے کہ دینار کو اس لیے دینار کہتے ہیں کہ وہ دین یعنی ایمان بھی ہے اور نار یعنی آگ بھی ہے ، مطلب یہ ہے کہ حق کے ساتھ لو تو دین ناحق لو تو نار یعنی آتش دوزخ ، اس موقع پر اس حدیث کا بیان کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے جو صحیح بخاری شریف میں کئی جگہ ہے اور کتاب الکفالہ میں بہت پوری ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے کسی اور شخص سے ایک ہزار دینار قرض مانگے اس نے کہا گواہ لاؤ کہا اللہ کی گواہی کافی ہے اس نے کہا ضامن لاؤ اس نے کہا ضمانت بھی اللہ ہی دیتا ہوں وہ اس پر راضی ہو گیا اور وقت ادائیگی مقرر کر کے رقم دے دی وہ اپنے دریائی سفر میں نکل گیا جب کام کاج سے نپٹ گیا تو دریا کنارے کسی جہاز کا انتظار کرنے لگا تاکہ جا کر اس کا قرض ادا کر دے لیکن سواری نہ ملی تو اس نے ایک لکڑی لی اور اسے بیچ میں سے کھوکھلا کر کے اس میں ایک ہزار دینار رکھ دئیے اور ایک خط بھی اس کے نام رکھ دیا پھر منہ بند کر کے اسے دریا میں ڈال دیا اور کہا اے اللہ تو بخوبی جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض لیے تیری شہادت پر اور تیری ضمانت پر اور اس نے بھی اس پر خوش ہو کر مجھے دے دئیے اب میں نے ہر چند کشتی ڈھونڈی کہ جا کر اس کا حق مدت کے اندر ہی اندر دے دوں لیکن نہ ملی پس اب عاجز آ کر تجھ پر بھروسہ کر کے میں اسے دریا میں ڈال دیتا ہوں تو اسے اس تک پہنچا دے یہ دعا کر کے لکڑی کو سمندر میں ڈال کر چلا آیا لکڑی پانی میں ڈوب گئی ، یہ پھر بھی تلاش میں رہا کہ کوئی سواری ملے تو جائے اور اس کا حق ادا کر آئے ادھر قرض خواہ شخص دریا کے کنارے آیا کہ شاید مقروض کسی کشتی میں اس کی رقم لے کر آ رہا ہو جب دیکھا کہ کوئی کشتی نہیں آئی اور جانے لگا تو ایک لکڑی کو جو کنارے پر پڑی ہوئی تھی یہ سمجھ کر اٹھا لیا کہ جلانے کے کام آئے گی گھر جا کر اسے چیرا تو مال اور خط نکلا کچھ دنوں بعد قرض دینے والا شخص آیا اور کہا اللہ تعالیٰ جانتا ہے میں نے ہر چند کوشش کی کہ کوئی سواری ملے تو آپ کے پاس آؤں اور مدت گزرنے سے پہلے ہی آپ کا قرض ادا کر دوں لیکن کوئی سواری نہ ملی اس لیے دیر لگ گئی اس نے کہا تو نے جو رقم بھیج دی تھی وہ اللہ نے مجھے پہنچا دی ہے تو اب اپنی یہ رقم واپس لے جا اور راضی خوشی لوٹا جا ،(صحیح بخاری:2291) ۱؎ یہ حدیث بخاری شریف میں تعلیق کے ساتھ بھی ہے لیکن جزم کے صیغے کے ساتھ اور بعض جگہ اسناد کے حوالوں کے ساتھ بھی ہے ۔ علاوہ ازیں اور کتابوں میں بھی یہ روایت موجود ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ امانت میں خیانت کرنے حقدار کے حق کو نہ ادا کرنے پر آمادہ کرنے والا سبب ان کا یہ غلط خیال ہے کہ ان بددینوں ان پڑھوں کا مال کھا جانے میں ہمیں کوئی حرج نہیں ہم پر یہ مال حلال ہے ، جس پر اللہ فرماتا ہے کہ یہ اللہ پر الزام ہے اور اس کا علم خود انہیں بھی ہے کیونکہ ان کی کتابوں میں بھی ناحق مال کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے ۔ لیکن یہ بیوقوف خود اپنی من مانی اور دل پسند باتیں گھڑ کر شریعت کے رنگ میں انہیں رنگ لیتے ہیں ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے لوگ مسئلہ پوچھتے ہیں کہ ذمی یا کفار کی مرغی بکری وغیرہ کبھی غزوے کی حالت میں ہمیں مل جاتی ہے تو ہم تو سمجھتے ہیں کہ اسے لینے میں کوئی حرج نہیں تو آپ نے فرمایا ٹھیک یہی اہل کتاب بھی کہتے تھے کہ امتیوں کا مال لینے میں کوئی حرج نہیں ، سنو جب وہ جزیہ ادا کر رہے ہیں تو ان کا کوئی مال تم پر حلال نہیں ہاں وہ اپنی خوشی سے دے دیں تو اور بات ہے ( عبدالرزاق ) سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب اہل کتاب سے حضور علیہ السلام نے یہ بات سنی تو فرمایا دشمنان الٰہ جھوٹے ہیں جاہلیت کی تمام رسمیں میرے قدموں تلے مٹ گئیں اور امانت تو ہر فاسق و فاجر کی بھی ادا کرنی پڑے گی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:7266-7267:مرسل ضعیف) ۱؎