هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
(اور دیکھو) یہ اسی (پروردگار) کی کارفرمائی ہے کہ اس نے زمین کی ساری چیزیں تمہارے لیے پیدا کیں (تاکہ جس طرح چاہو ان سے کام لو) پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور سات آسمان درست کردیے (جن سے طرح طرح کے فوائد تمہیں حاصل ہوتے ہیں) اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے
کچھ اور دلائل اوپر کی آیات میں ان دلائل قدرت کا بیان تھا جو خود انسان کے اندر ہیں اب اس مبارک آیت میں ان دلائل کا بیان ہو رہا ہے جو روز مرہ آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ «اسْتَوَیٰ» یہاں قصد کرنے اور متوجہ ہونے کے معنی میں ہے اس لیے کہ اس کا صلہ «الی» ہے «سَوَّاہُنَّ» کے معنی درست کرنے اور ساتوں آسمان بنانے کے ہیں «سماء» اسم جنس ہے ۔ پھر بیان فرمایا کہ اس کا کا علم محیط کل ہے جیسے ارشاد آیت «اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ» ( 67 ۔ الملک : 14 ) وہ بےعلم ہو کیسے سکتا ہے جو خالق ہو ؟ سورۃ حم سجدہ کی آیت «قُلْ أَئِنَّکُمْ لَتَکْفُرُونَ بِالَّذِی خَلَقَ الْأَرْضَ فِی یَوْمَیْنِ وَتَجْعَلُونَ لَہُ أَندَادًا ذٰلِکَ رَبٰ الْعَالَمِینَ وَجَعَلَ فِیہَا رَوَاسِیَ مِن فَوْقِہَا وَبَارَکَ فِیہَا وَقَدَّرَ فِیہَا أَقْوَاتَہَا فِی أَرْبَعَۃِ أَیَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِینَ ثُمَّ اسْتَوَیٰ إِلَی السَّمَاءِ وَہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا أَوْ کَرْہًا قَالَتَا أَتَیْنَا طَائِعِینَ فَقَضَاہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِی یَوْمَیْنِ وَأَوْحَیٰ فِی کُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَہَا وَزَیَّنَّا السَّمَاءَ الدٰنْیَا بِمَصَابِیحَ وَحِفْظًا ذٰلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ» ( 41-فصلت : 9 - 12 ) گویا اس آیت کی تفصیل ہے جس میں فرمایا ہے کیا تم اس اللہ کے ساتھ کفر کرتے ہو ؟ جس نے زمین کو صرف دو دن میں پیدا کیا تم اس کے لیے شریک ٹھہراتے ہو ؟ جو رب العالمین ہے جس نے زمین میں مضبوط پہاڑ اوپر سے گاڑ دئیے جس نے زمین میں برکتیں اور روزیاں رکھیں اور چار دن میں زمین کی سب چیزیں درست کر دیں ۔ جس میں دریافت کرنے والوں کی تشفی ہے پھر آسمانوں کی طرف متوجہ ہو کر جو دھویں کی شکل میں تھے فرمایا کہ اے زمینو اور آسمانو خوشی یا ناخوشی سے آؤ تو دونوں نے کہا باری تعالیٰ ہم تو برضا و خوشی حاضر ہیں ۔ دو دن میں ان ساتوں آسمانوں کو پورا کر دیا اور ہر آسمان میں اس کا کام بانٹ دیا اور دنیا کے آسمان کو ستاروں کے ساتھ مزین کر دیا اور انہیں ( شیطانوں سے ) بچاؤ کا سبب بنایا ۔ یہ ہے اندازہ اس اللہ کا جو بہت بڑا غالب اور بہت بڑے علم والا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ پہلے زمین پیدا کی پھر ساتوں آسمان ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر عمارت کا یہی قاعدہ ہے کہ پہلے نیچے کا حصہ بنایا جائے پھر اوپر کا مفسرین نے بھی اس کی تصریح کی ہے جس کا بیان بھی ابھی آئے گا ۔ ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ لیکن یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے ۔ آیت «ءَاَنْتُمْ اَشَدٰ خَلْقًا اَمِ السَّمَاءُ بَنٰیہَا» ( 79 ۔ النازعات : 27 ) تمہاری پیدائش مشکل ہے یا آسمانوں کی ؟ اللہ تعالیٰ نے اس کے خلا کو بلند کر کے اسے ٹھیک ٹھاک کیا اور ان میں سے رات دن پیدا کئے پھر اس کے بعد زمین پھیلائی اس سے پانی اور چارہ نکالا اور پہاڑوں کو گاڑا جو سب تمہارے اور تمہارے جانوروں کے کام کی چیزیں ہیں ۔ اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ زمین کی پیدائش آسمان کے بعد ہے تو بعض بزرگوں نے تو فرمایا ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں «ثم» صرف عطف خبر کے لیے ہے عطف فعل کے لیے نہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:437/1) یعنی یہ مطلب نہیں کہ زمین کے بعد آسمان کی پیدائش شروع کی بلکہ صرف خبر دینا مقصود ہے کہ آسمانوں کو بھی پیدا کیا اور زمینوں کو بھی ۔ عرب شاعروں کے اشعار میں یہ موجود ہے کہ کہیں «ثم» صرف خبر کا خبر پر عطف ڈالنے کے لیے ہوتا ہے تقدیم تاخیر مراد نہیں ہوتی ۔ اور بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ آیت «ءَاَنْتُمْ» میں آسمانوں کی پیدائش کے بعد زمین کا پھیلانا اور بچھانا وغیرہ بیان ہوا ہے نہ کہ پیدا کرنا ۔ تو ٹھیک یہ ہے کہ پہلے زمین کو پیدا کیا پھر آسمان کو پھر زمین کو ٹھیک ٹھاک کیا اس طرح دونوں آیتیں ایک دوسرے کے مخالف نہ رہیں گی ۔ اس عیب سے اللہ کا کلام بالکل محفوظ ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہی معنی بیان فرمائے ہیں ( یعنی پہلے زمین کی درستی وغیرہ یہ بعد کی چیز ہے ) سیدنا ابن مسعود ، سیدنا ابن عباس اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا اور کسی چیز کو پیدا نہیں کیا تھا جب اور مخلوق کو پیدا کرنا چاہا تو پانی سے دھواں بلند کیا وہ اونچا چڑھا اور اس سے آسمان بنائے پھر پانی خشک ہو گیا اور اس کی زمین بنائی پھر اس کو الگ الگ کر کے سات زمینیں بنائیں اتوار اور پیر کے دو دن میں یہ ساتوں زمینیں بن گئیں ۔ زمین مچھلی پر ہے اور مچھلی وہ ہے جس کا ذکر قرآن مجید کی اس آیت میں ہے آیت ( ن والقلم ) مچھلی پانی میں ہے اور پانی صفاۃ پر ہے اور صفاۃ فرشتے پر اور فرشتے پتھر پر زمین کانپنے لگی تو اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو گاڑ دیا اور وہ ٹھہر گئی ۔ یہی معنی میں اللہ تعالیٰ کے فرمان آیت «وَجَعَلْنَا فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِہِمْ» ( 21 ۔ الانبیآء : 38 ) زمین نہ ہلے اس لیے ہم نے اس میں پہاڑ جما دئیے ہیں ۔ پہاڑ زمین کی پیداوار درخت وغیرہ زمین کی کل چیزیں منگل اور بدھ کے دو دنوں میں پیدا کیں اسی کا بیان آیت «قُلْ أَئِنَّکُمْ لَتَکْفُرُونَ بِالَّذِی خَلَقَ الْأَرْضَ فِی یَوْمَیْنِ وَتَجْعَلُونَ لَہُ أَندَادًا ذٰلِکَ رَبٰ الْعَالَمِینَ وَجَعَلَ فِیہَا رَوَاسِیَ مِن فَوْقِہَا وَبَارَکَ فِیہَا وَقَدَّرَ فِیہَا أَقْوَاتَہَا فِی أَرْبَعَۃِ أَیَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِینَ ثُمَّ اسْتَوَیٰ إِلَی السَّمَاءِ وَہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا أَوْ کَرْہًا قَالَتَا أَتَیْنَا طَائِعِینَ فَقَضَاہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِی یَوْمَیْنِ وَأَوْحَیٰ فِی کُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَہَا وَزَیَّنَّا السَّمَاءَ الدٰنْیَا بِمَصَابِیحَ وَحِفْظًا ذٰلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ» ( 41-فصلت : 9 - 12 ) والی آیت میں ہے پھر آسمان کی طرف توجہ فرمائی جو دھواں تھا آسمان بنایا پھر اسی میں ساتھ آسمان بنائے جمعرات اور جمعہ کے دو دنوں میں جمعہ کے دن کو اس لیے جمعہ کہا جاتا ہے کہ اس میں زمین و آسمان کی پیدائش جمع ہو گئی ہر آسمان میں اس نے فرشتوں کو پیدا کیا اور ان ان چیزوں کو جن کا علم اس کے سوا کسی کو نہیں کہ دنیا آسمان کو ستاروں کے ساتھ زینت دی اور انہیں شیطان سے حفاظت کا سبب بنایا ان تمام چیزوں کو پیدا کر کے پروردگار نے عرش عظیم پر قرار پکڑا ۔ جیسے فرماتا ہے آیت «خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ» (7-الأعراف:54) یعنی چھ دن میں آسمانوں اور زمین کو پیدا کر کے پھر عرش پر مستوی ہو گیا اور جگہ فرمایا آیت «کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰہُمَا» ( 21 ۔ الانبیآء : 30 ) یعنی یہ دونوں دھواں سے تھے ہم نے انہیں پھاڑا اور پانی سے ہر چیز کو زندگی دی ( تفسیر سدی ) ( یہ موقوف قول جس میں کئی قسم کا احتمال ہے بہ ظاہراً ایسی اہم بات میں حجت تامہ نہیں ہو سکتا ) ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ابن جریر رحمہ اللہ میں ہے سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اتوار سے مخلوق کی پیدائش شروع ہوئی ۔ دو دن میں زمینیں پیدا ہوئیں دو دن میں ان میں موجود تمام چیزیں پیدا کیں اور دو دن میں آسمانوں کو پیدا کیا جمعہ کے دن آخری وقت ان کی پیدائش ختم ہوئی اور اسی وقت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور اسی وقت میں قیامت قائم ہو گی ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو آسمان سے پہلے پیدا کیا اس سے جو دھواں اوپر چڑھا اس کے آسمان بنائے جو ایک پر ایک اس طرح سات ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:436/1) اور زمینیں ایک نیچے ایک اوپر اس طرح سات ہیں ۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی پیدائش آسمانوں سے پہلے ہے جیسے سورۃ السجدہ کی آیت میں ہے ۔ علماء کی اس پر متفق ہیں ۔ صرف قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آسمان زمین سے پہلے پیدا ہوئے ہیں ۔ قرطبی رحمہ اللہ اس میں توقف کرتے ہیں آیت «وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذٰلِکَ دَحَاہَا أَخْرَجَ مِنْہَا مَاءَہَا وَمَرْعَاہَا وَالْجِبَالَ أَرْسَاہَا» ( 79-النازعات : 30 - 32 ) کی آیت کی وجہ سے یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں آسمان کی پیدائش کا ذکر زمین سے پہلے ہے ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جب یہ سوال ہوا تو آپ رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ زمین پیدا تو آسمانوں سے پہلے کی گئی ہے لیکن بعد میں پھیلائی گئی ہے ۔ (صحیح بخاری:555/8-مع الفتح) یہی جواب اگلے پچھلے علماء کا ہے ۔ سورۃ النازعات کی تفسیر میں بھی اس کا بیان آئے گا ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ حاصل امر یہ ہے کہ زمین کا پھیلانا اور بچھانا بعد میں ہے اور «دحھا» کا لفظ قرآن میں ہے اور اس کے بعد جو پانی چارہ پہاڑ وغیرہ کا ذکر ہے یہ گویا اس لفظ کی تشریح ہے جن جن چیزوں کی نشوونما کی قوت اس زمین میں رکھی تھی ان سب کو ظاہر کر دیا اور زمین کی پیداوار طرح طرح کی مختلف شکلوں اور مختلف قسموں میں نکل آئی ۔ اسی طرح آسمان میں بھی ٹھہرے رہنے والے چلنے والے ستارے وغیرہ بنائے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» صحیح مسلم اور نسائی میں حدیث میں ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا مٹی کو اللہ تعالیٰ نے ہفتہ والے دن پیدا کیا ، پہاڑوں کو اتوار کے دن ، درختوں کو پیر کے دن ، برائیوں کو منگل کے دن نور کو ، بدھ کے دن ، جانوروں کو جمعرات کے دن ، آدم کو جمعہ کے دن اور عصر کے بعد جمعہ کی آخری ساعت میں عصر کے بعد سے رات تک ۔ (صحیح مسلم:2789:صحیح) یہ حدیث غرائب میں سے ہے ۔ امام ابن مدینی رحمہ اللہ ، امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ نے اس پر بحث کی ہے اور فرمایا ہے کہ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کا اپنا قول اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما نے سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کا یہ قول سنا ہے اور بعض راویوں نے اسے غلطی سے مرفوع حدیث قرار دے لیا ہے ۔ امام بیہقی رحمہ اللہ یہی کہتے ہیں ۔