سورة الأحزاب - آیت 56

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں اے ایمان والو تم بھی ان پر درود اور سلام بھیجا کرو (١٠)۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

صلوۃ و سلام کی فضیلت صحیح بخاری شریف میں ابوالعالیہ سے مروی ہے کہ ” اللہ کا اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا اپنے فرشتوں کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ثناء و صفت کا بیان کرنا ہے اور فرشتوں کا درود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دعا کرنا ہے “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” یعنی برکت کی دعا “ ۔ اکثر اہل علم کا قول ہے کہ ” اللہ کا درود رحمت ہے فرشتوں کا درود استغفار ہے “ ۔ عطا رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ کی صلوٰۃ «سُبٰوحٌ قُدٰوسٌ , سَبَقَتْ رَحْمَتِی غَضَبِی» ہے ۔ مقصود اس آیت شریفہ سے یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر و منزلت عزت و مرتبت لوگوں کی نگاہوں میں جچ جائے وہ جان لیں کہ خود اللہ تعالیٰ آپ کا ثناء خواں ہے اور اس کے فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے رہتے ہیں ۔ ملاء اعلیٰ کی یہ خبر دے کر اب زمین والوں کو حکم دیتا ہے کہ ’ تم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجا کرو تاکہ عالم علوی اور عالم سفلی کے لوگوں کا اس پر اجتماع ہو جائے ‘ ۔ موسیٰ علیہ السلام سے بنی اسرائیل نے پوچھا تھا کہ کیا اللہ تم پر صلٰواۃ بھیجتا ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی کہ ’ ان سے کہدو کہ ہاں اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں اور رسولوں پر رحمت بھیجتا رہتا ہے ‘ ۔ اسی کی طرف اس آیت میں بھی اشارہ ہے دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ ’ یہی رحمت اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں پر بھی نازل فرماتا ہے ‘ ، ارشاد ہے «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا اذْکُرُوا اللہَ ذِکْرًا کَثِیرًا وَسَبِّحُوہُ بُکْرَۃً وَأَصِیلًا ہُوَ الَّذِی یُصَلِّی عَلَیْکُمْ وَمَلَائِکَتُہُ لِیُخْرِجَکُمْ مِنَ الظٰلُمَاتِ إِلَی النٰورِ وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِینَ رَحِیمًا» (33-الأحزاب:41-43) ، یعنی ’ اے ایمان والو تم اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کرتے رہا کرو اور صبح شام اس کی تسبیح بیان کیا کرو وہ خود تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ الَّذِینَ إِذَا أَصَابَتْہُم مٰصِیبَۃٌ قَالُوا إِنَّا لِلہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ أُولٰئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ وَأُولٰئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُونَ» ۱؎ (2-البقرۃ:155-157) ، ’ صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے ۔ جنہیں جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ «إِنَّا لِلہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ» ۱؎ (2-البقرۃ:156) ، پڑھتے ہیں ۔ ان پر ان کے رب کی طرف سے درود نازل ہوتے ہیں ‘ ۔ حدیث شریف میں ہے { اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے صفوں کی داہنی طرف والوں پر صلٰواۃ بھیجتے رہتے ہیں } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:676 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) دوسری حدیث میں { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک شخص کے لیے یہ دعا مروی ہے کہ { « اللہُمَّ ، صَلِّ عَلَی آلِ أَبِی أَوْفَی» اے اللہ آلِ ابی اوفی پر اپنی رحمت نازل فرما } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1497) { سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی بیوی صاحبہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ” میرے لیئے اور میرے خاوند کے لیے صلٰواۃ بھیجئے “ ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { «صَلَّی اللہُ عَلَیْکَ ، وَعَلَی زَوْجِکَ» ” اللہ تجھ پر اور تیرے خاوند پر درود نازل فرمائے “ } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1533 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) درود شریف کے بیان کی بہت سی حدیثیں ہیں جن میں تھوڑی ہم یہاں وارد کرتے ہیں ۔ «وَ اللہُ الْمُسْتَعَانُ» بخاری شریف میں ہے ، { آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا ، ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کرنا تو جانتے ہیں ، صلٰواۃ کا طریقہ کیا ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { التحیات کے بعد کے دونوں درود بتلائے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6357) لیکن دونوں میں «وَعَلَی آَلِ إِبْرَاہِیْمَ» کا لفظ نہیں ہے ۔ ایک اور روایت میں ہے «آَلِ إِبْرَاہِیْمَ» کا لفظ نہیں ۔ اور روایت میں پہلا درود تو پہلے لفظوں کے ساتھ ہے اور دوسرا کچھ تغیر کے ساتھ ۔ عبدالرحمٰن بن ابی لیلی آخر میں «وَعَلَیْنَا مَعَہُمْ» بھی کہتے تھے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:483،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۔ جس سلام کی یہاں ذکر ہے ، وہ التحیات میں «اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُہَا النَّبِیُ وَرَحْمَۃُ اﷲِ وَبَرَکَاتُہُ» ہے ۔ یہ التحیات آپ صلی اللہ علیہ وسلم مثل قرآن کی سورت سکھایا کرتے تھے ۔ ایک روایت میں { « اللہُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَ نَبِیِّکَ وَ رَسُوْلِکَ» بھی ہے اور پچھلے درود میں قدرے تغیر ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4798) ایک روایت میں درود کے الفاظ یہ ہیں { « اللہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِہِ وَذُرِّیَّتِہِ ، کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ ، وَبَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِہِ وَذُرِّیَّتِہِ ، کَمَا بَارَکْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ ، إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ» } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3369) بعض روایتوں میں «عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ» کے بعد «فِی الْعَالَمِینَ» کا لفظ بھی ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:906) ایک روایت میں سوال میں یہ لفظ بھی ہیں کہ درود نماز میں ہم کس طرح پڑھیں ۔ ۱؎ (مسند احمد:119/4:صحیح) امام شافعی رحمہ اللہ کا مذہب ہے کہ ” نماز کے آخری تشہد میں اگر کسی نے درود نہیں پڑھا تو اس کی نماز صحیح نہیں ہوگی ۔ درود کا پڑھنا اس جگہ واجب ہے “ ۔ بعض متاخرین نے اس مسئلے میں امام صاحب کا رد کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ صرف انہی کا قول اور اس کے خلاف اجماع ہے حالانکہ یہ غلط ہے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے یہی کہا ہے مثلاً سیدنا ابن مسعود ، سیدنا ابومسعود بدری ، سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم ۔ تابعین میں بھی اس مذہب کے لوگ گزرے ہیں جیسے شعمی ، ابو جعفر باقر ، مقاتل بن حیان رحمہ اللہ علیہم وغیرہ اور شافعیہ کا سب کا تو یہی مذہب ہے ۔ امام احمدرحمہ اللہ کا بھی آخری قول یہی ہے ۔ جیسے ابوزرعہ دمشقی رحمہ اللہ کا بیان ہے ، اسحٰق بن راہویہ رحمہ اللہ ، امام محمد بن ابراہیم فقیہ رحمہ اللہ بھی یہی کہتے ہیں ۔ بلکہ بعض حنبلی آئمہ نے یہی کہا ہے کہ کم از کم «صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ» کا نماز میں کہنا واجب ہے جیسے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے سوال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم دی اور ہمارے بعض ساتھیوں نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر درود بھیجنا بھی واجب کہا ہے ۔ الغرض درود کا نماز میں واجب ہونے کا قول بہت ظاہر ہے اور حدیث میں اس کی دلیل بھی موجود ہے اور سلف و خلف میں امام شافعی رحمہ اللہ کے علاوہ اور آئمہ بھی اس کے قائل رہے ہیں ۔ پس یہ کہنا کسی طرح صحیح نہیں کہ امام صاحب ہی کا یہ قول ہے اور یہ خلاف اجماع ہے ۔ اس کی تائید اس صحیح حدیث سے بھی ہوتی ہے جو مسند احمد ، ترمذی ، ابوداؤد ، نسائی ، ابنِ خزیمہ ، ابنِ حبان وغیرہ میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سن رہے تھے ۔ ایک شخص نے بغیر اللہ کی حمد و ثنأ کیئے اور بغیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم درود پڑھے اپنی نماز میں دعا کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اس نے بہت جلدی کی } ، پھر اسے بلا کر فرمایا : یا کسی اور کو فرمایا کہ { جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو پہلے اللہ کی تعریفیں بیان کرے ، پھر درود پڑھے ، پھر جو چاہے دعا مانگے } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1481،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابنِ ماجہ میں ہے کہ { جس کا وضو نہیں ، اس کی نماز نہیں ۔ جو وضو میں «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» نہ کہے ، اس کا وضو نہیں ۔ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ پڑھے ، اس کی نماز نہیں ۔ جو انصار سے محبت نہ رکھے ، اس کی نماز نہیں } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:400،قال الشیخ الألبانی:منکر) اس کی سند میں عبدالمہیمن نامی راوی متروک ہے ۔ طبرانی میں یہ روایت ان کے بھائی سے مروی ہے لیکن اس میں بھی نظر ہے اور معروف روایت پہلی ہی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مسند میں ہے کہ { ہم نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کہنا تو جانتے ہیں درود سکھا دیجیئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یوں کہو « اللہُمَّ اجْعَلْ صَلَوَاتِکَ وَرَحْمَتَکَ وَبَرَکَاتِکَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ ، کَمَا جَعَلْتَہَا عَلَی إِبْرَاہِیمَ وَآلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ» } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:353/3:ضعیف) اس کا ایک راوی ابوداؤد اعمیٰ جس کا نام نفیع بن حارث ہے وہ متروک ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے لوگوں کو اس دعا کا سکھانا بھی مروی ہے ، « اللہُمَّ دَاحِی الْمَدْحُوَّات وَبَارِئ الْمَسْمُوکَات وَجَبَّار الْقُلُوب عَلَی فِطْرَتہَا شَقِیّہَا وَسَعِیدہَا اِجْعَلْ شَرَائِف صَلَوَاتک وَنَوَامِی بَرَکَاتک وَرَأْفَۃ تَحَنٰنِک عَلَی مُحَمَّد عَبْدک وَرَسُولِک الْفَاتِح لِمَا أُغْلِقَ وَالْخَاتَم لِمَا سَبَقَ وَالْمُعْلِن الْحَقّ بِالْحَقِّ وَالدَّامِغ لِجَیْشَاتِ الْأَبَاطِیل کَمَا حَمَلَ فَاضْطَلَعَ بِأَمْرِک بِطَاعَتِک مُسْتَوْفِزًا فِی مَرْضَاتک غَیْر نَکِل فِی قَدَم وَلَا وَہَن فِی عَزْم وَاعِیًا لِوَحْیِک حَافِظًا لِعَہْدِک مَاضِیًا عَلَی نَفَاذ أَمْرک حَتَّی أَوْرَی قَبَسًا لِقَابِس , آلَاء اللَّہ تَصِل بِأَہْلِہِ أَسْبَابہ بِہِ ہُدِیَتْ الْقُلُوب بَعْد خَوْضَات الْفِتَن وَالْإِثْم وَأَبْہَج مُوَضِّحَات الْأَعْلَام وَنَائِرَات الْأَحْکَام وَمُنِیرَات الْإِسْلَام فَہُوَ أَمِینک الْمَأْمُون وَخَازِن عِلْمک الْمُخْزُونَ وَشَہِیدک یَوْم الدِّین وَبَعِیثُک نِعْمَۃ وَرَسُولُک بِالْحَقِّ رَحْمَۃ , اللہُمَّ أَفْسِحْ لَہُ فِی عَدْنک وَاجْزِہِ مُضَاعَفَات الْخَیْر مِنْ فَضْلِک مُہَنَّآت غَیْر مُکَدَّرَات مِنْ فَوْز ثَوَابک الْمَحْلُول وَجَزِیل عَطَائِک الْمَلُول اللہُمَّ أَعْلِ عَلَی بِنَاء النَّاس بِنَاءَہُ وَأَکْرِمْ مَثْوَاہُ لَدَیْک وَنُزُلہ وَأَتْمِمْ لَہُ نُورہ وَاجْزِہِ مِنْ اِبْتِعَاثک لَہُ مَقْبُول الشَّہَادَۃ مَرَضِیّ الْمَقَالَۃ ذَا مَنْطِق عَدْل وَخُطَّۃ فَصْل . وَحُجَّۃ وَبُرْہَان عَظِیم» مگر اس کی سند ٹھیک نہیں اس کا راوی ابو الحجاج مزی سلامہ کندی نہ تو معروف ہے نہ اس کی علامات سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے ۔۱؎ (التاریخ الکبیر للبخاری:195/4:ضعیف) ابن ماجہ میں ہے { سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو تو بہت اچھا درود پڑھا کرو ۔ بہت ممکن ہے کہ تمہارا یہ درود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کیا جائے ۔ لوگوں نے کہا پھر آپ رضی اللہ عنہ ہی ہمیں کوئی ایسا درود سکھائیے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا بہتر ہے یہ پڑھو « اللہُمَّ اِجْعَلْ صَلَوَاتک وَرَحْمَتک وَبَرَکَتک عَلَی سَیِّد الْمُرْسَلِینَ وَإِمَام الْمُتَّقِینَ وَخَاتَم النَّبِیِّینَ مُحَمَّد عَبْدک وَرَسُولک إِمَام الْخَیْر وَقَائِد الْخَیْر وَرَسُول الرَّحْمَۃ اللہُمَّ اِبْعَثْہُ مَقَامًا مَحْمُودًا یَغْبِطہُ بِہِ الْأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ» اس کے بعد التحیات کے بعد کے دونوں درود [ درود ابراھیمی ] ہیں } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:906،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہ روایت بھی موقف ہے ۔ ابن جریر کی ایک روایت میں ہے کہ { یونس بن خباب رحمہ اللہ نے اپنے فارس کے ایک خطبے میں اس آیت کی تلاوت کی ، پھر لوگوں کے درود کے طریقے کے سوال کو بیان فرما کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب میں «وَارْحَمْ مُحَمَّدًا وَآلَ مُحَمَّد کَمَا رَحِمْت آلَ إِبْرَاہِیم» کو بھی بیان فرمایا ہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28635:) اس سے یہ بھی استدلال کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے رحم کی دعا بھی ہے ۔ جمہور کا یہی مذہب ہے ۔ اس کی مزید تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں ہے کہ { ایک اعرابی نے اپنی دعا میں کہا تھا ” اے اللہ مجھ پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحم کر اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ کر “ ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا : { تو نے بہت ہی زیادہ کشادہ چیز تنگ کر دی } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6010) قاضی عیاض نے جمہور مالکیہ سے اس کا عدم جواز نقل کیا ہے ۔ ابو محمد بن ابوزید بھی اس کے جواز کی طرف گئے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { جب تک کوئی شخص مجھ پر درد بھیجتا رہتا ہے تب تک فرشتے بھی اس کے لیے دعا رحم کرتے رہتے ہیں ۔ اب تمہیں اختیار ہے کہ کمی کرو یا زیادتی کرو } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:907،قال الشیخ الألبانی:حسن) حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { سب سے قریب روز قیامت مجھ سے وہ ہو گا جو سب سے زیادہ مجھ پر درود پڑھا کرتا تھا } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:484،قال الشیخ الألبانی:حسن لغیرہ) فرمان ہے { مجھ پر جو ایک مرتبہ درود بھیجے اللہ تعالیٰ اس پر اپنی دس رحمتیں بھیجتا ہے ۔ اس پر ایک شخص نے کہا پھر میں اپنی دعا کا آدھا وقت درود میں ہی خرچ کروں گا ۔ فرمایا : { جیسی تیری مرضی } ۔ اس نے کہا پھر میں دو تہائیاں کر لوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اگر چاہے } ۔ اس نے کہا پھر تو میں اپنا سارا وقت اس کے لیے ہی کر دیتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اس وقت اللہ تعالیٰ تجھے دین و دنیا کے غم سے نجات دیدے گا اور تیرے گناہ معاف فرما دے گا } } ۔ ( ترمذی ) سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ { آدھی رات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلتے اور فرماتے ہیں { ہلا دینے والی آ رہی ہے اور اس کے پیچھے ہی پیچھے لگنے والی بھی ہے } ۔ ابی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ کہا ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں رات کو کچھ نماز پڑھا کرتا ہوں ، تو اس کا تہائی حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتا رہوں ؟ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { آدھا حصہ } ۔ انہوں نے کہا کہ آدھا کر لوں ؟ فرمایا : { دو تہائی } کہا اچھا میں پورا وقت اسی میں گزاروں گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تب تو اللہ تیرے تمام گناہ معاف فرما دے گا } } ( ترمذی ) اسی روایت کی ایک اور سند میں ہے { دو تہائی رات گزرنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { لوگو اللہ کی یاد کرو ۔ لوگو ذکر الٰہی کرو ۔ دیکھو کپکپا دینے والی آ رہی ہے اور اس کے پیچھے ہی پیچھے لگنے والی آ رہی ہے ۔ موت اپنے ساتھ کی کل مصیبتوں اور آفتوں کو لیے ہوئے چلی آ رہی ہے } ۔ ابی نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بکثرت درود پڑھتا ہوں پس کتنا وقت اس میں گزاروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جتنا تو چاہے } ۔ کہا چوتھائی ؟ فرمایا : { جتنا چاہو اور زیادہ کرو تو اور اچھا ہے } ۔ کہا آدھا تو یہی جواب دیا پوچھا دو تہائی تو یہی جواب ملا ۔ کہا تو بس میں سارا ہی وقت اس میں گزاروں گا ۔ فرمایا : { پھر اللہ تعالیٰ تجھے تیرے تمام ہم و غم سے بچا لے گا اور تیرے گناہ معاف فرما دے گا } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2457،قال الشیخ الألبانی:حسن) { ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر میں اپنی تمام تر صلوۃ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی پر کر دوں تو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { دنیا اور آخرت کے تمام مقاصد پورے ہو جائیں گے } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:136/5:حسن) سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ گھر سے نکلے ۔ میں ساتھ ہو لیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجوروں کے ایک باغ میں گئے وہاں جا کر سجدے میں گرگئے اور اتنا لمبا سجدہ کیا ، اس قدر دیر لگائی کہ مجھے تو یہ کھٹکا گزرا کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پرواز نہ کر گئی ہو ۔ قریب جا کر غور سے دیکھنے لگا ، اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا مجھ سے پوچھا { کیا بات ہے ؟ } تو میں نے اپنی حالت ظاہر کی ۔ فرمایا : { بات یہ تھی کہ جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھ سے فرمایا ” تمہیں بشارت سناتا ہوں کہ جناب باری عزاسمہ فرماتا ہے ’ جو تجھ پر درود بھیجے گا میں بھی اس پر درود بھیجوں گا اور جو تجھ پر سلام بھیجے گا میں بھی اس پر سلام بھیجوں گا ‘ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:191/1:حسن لغیرہ) اور روایت میں ہے کہ { یہ سجدہ اس امر پر اللہ کے شکریے کا تھا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:191/5:حسن لغیرہ) { ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی کام کے لیے نکلے کوئی نہ تھا جو آپ کے ساتھ جاتا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جلدی سے پیچھے پیچھے گئے ۔ دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں ہیں ، دور ہٹ کر کھڑے ہو گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھ کر فرمایا : { تم نے یہ بہت اچھا کیا کہ مجھے سجدے میں دیکھ کر پیچھے ہٹ گئے ۔ سنو میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا ” آپ کی امت میں سے جو ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے گا ۔ اللہ اس پر دس رحمتیں اتارے گا اور اس کے دس درجے بلند کرے گا “ } ۔ (طبرانی) { ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس آئے ، چہرے سے خوشی ظاہر ہورہی تھی ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے سبب دریافت فرمایا کیا تو تو فرمایا : { ایک فرشتے نے آکر مجھے یہ بشارت دی کہ میرا امتی جب مجھ پر درود بھیجے گا تو اللہ تعالیٰ کی دس رحمتیں اس پر اتریں گی ۔ اسی طرح ایک سلام کے بدلے دس سلام } } ۔ ۱؎ (سنن نسائی:1284،قال الشیخ الألبانی:حسن) اور روایت میں ہے کہ { ایک درود کے بدلے دس نیکیاں ملیں گی ، دس گناہ معاف ہوں گے ، دس درجے بڑھیں گے اور اسی کے مثل اس پر لوٹایا جائے گا } ۔ (مسند احمد:29/4:حسن) { جو شخص مجھ پر ایک درود بھیجے گا اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:408) { حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { مجھ پر درود بھیجا کرو وہ تمہارے لیے زکوٰۃ ہے اور میرے لیے وسیلہ طلب کیا کرو وہ جنت میں ایک اعلیٰ درجہ ہے جو ایک شخص کو ہی ملے گا کیا عجب کہ وہ میں ہی ہوں } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:365/2:ضعیف) سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وسلم پر جو درود بھیجتا ہے اللہ اور اس کے فرشتے اس پر ستر درود بھیجتے ہیں ۔ اب جو چاہے کم کرے اور جو چاہے اس میں زیادتی کرے سنو ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے ایسے کہ گویا کوئی کسی کو رخصت کر رہا ہو ، تین بار فرمایا کہ { میں امی نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں ۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ مجھے نہایت کھلا بہت جامع اور ختم کر دینے والا کلام دیا گیا ہے ۔ مجھے جہنم کے داروغوں کی عرش کے اٹھانے والوں کی گنتی بتادی گئی ہے ۔ مجھ پر خاص عنایت کی گئی ہے اور مجھے اور میری امت کو عافیت عطا فرمائی گئی ہے ۔ جب تک میں تم میں موجود ہوں سنتے اور مانتے رہو ۔ جب مجھے میرا رب لے جائے تو تم کتاب اللہ کو مضبوط تھامے رہنا اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام سمجھنا } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:172/2:ضعیف) فرماتے ہیں { جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اسے چاہیئے کہ مجھ پر درود بھیجے ۔ ایک مرتبہ کے درود بھیجنے سے اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے } ۔ ۱؎ (نسائی فی السنن الکبری:9889:جید) { ایک درود دس رحمتیں دلواتا ہے اور دس گناہ معاف کراتا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:384) { بخیل ہے وہ جس کے سامنے میرا ذکر کیا گیا اور اس نے مجھ پر درود نہ پڑھا } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3546،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور روایت میں ہے { ایسا شخص سب سے بڑا بخیل ہے } ۔ ۱؎ (فضل الصلواۃ علی النبی:37) ایک مرسل حدیث میں ہے { انسان کو یہ بخل کافی ہے کہ میرا نام سن کر درود نہ پڑھے } ۔ فرماتے ہیں { وہ شخص برباد ہوا جس کے پاس میرا ذکر کیا گیا اور اس نے مجھ پر درود نہ بھیجا ۔ وہ برباد ہوا جس کی زندگی میں رمضان آیا اور نکل جانے تک اس کے گناہ معاف نہ ہوئے ۔ وہ بھی برباد ہوا جس نے اپنے ماں باپ کے بڑھاپے کے زمانے کو پا لیا پھر بھی انہوں نے اسے جنت میں نہ پہنچایا } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3535،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیثیں دلیل ہیں اس امر پر کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا واجب ہے ۔ علماء کی ایک جماعت کا بھی یہی قول ہے ۔ جیسے طحاوی حلیمی رحمہ اللہ علیہم وغیرہ ۔ ابن ماجہ میں ہے { جو مجھ پر درود پڑھنا بھول گیا اس نے جنت کی راہ سے خطا کی } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:908،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) یہ حدیث مرسل ہے ۔ لیکن پہلی احادیث سے اس کی پوری تقویت ہو جاتی ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں مجلس میں ایک دفعہ تو واجب ہے پھر مستحب ہے ۔ چنانچہ ترمذی کی ایک حدیث میں ہے { جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں اور اللہ کے ذکر اور درود کے بغیر اٹھ کھڑے ہوں وہ مجلس قیامت کے دن ان پر وبال ہو جائے گی ۔ اگر اللہ چاہے تو انہیں عذاب کرے چاہے معاف کر دے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3380،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور روایت میں ذکر اللہ کا ذکر نہیں ، اس میں یہ بھی ہے کہ { گو وہ جنت میں جائیں لیکن محرومی ثواب کے باعث انہیں سخت افسوس رہے گا } ۔ ۱؎ (فضل الصلواۃ علی النبی:55) بعض کا قول ہے کہ عمر بھر میں ایک مرتبہ آپ پر درود واجب ہے پھر مستحب ہے تاکہ آیت کی تعمیل ہو جائے ۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے وجوب کو بیان فرما کر اسی قول کی تائید کی ہے ۔ لیکن طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آیت سے تو استحاب ہی ثابت ہوتا ہے اور اس پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ ان کا مطلب بھی یہی ہو کہ ایک مرتبہ واجب پھر مستحب جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی گواہی ۔ لیکن میں کہتا ہوں بہت سے ایسے اوقات ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کا ہمیں حکم ملا ہے لیکن بعض وقت واجب ہے اور بعض جگہ واجب نہیں ۔ چنانچہ ( 1 ) اذان سن کر ۔ دیکھئیے مسند کی حدیث میں ہے { جب تم اذان سنو تو جو مؤذن کہہ رہا ہو تم بھی کہو پھر مجھ پر درود بھیجو ایک کے بدلے دس درود اللہ تم پر بھیجے گا پھر میرے لیے وسیلہ مانگو جو جنت کی ایک منزل ہے اور ایک ہی بندہ اس کا مستحق ہے مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہوں سنو جو میرے لیے وسیلہ کی دعا کرتا ہے اس کے لیے میری شفاعت حلال ہو جاتی ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:384) پہلے درود کے زکوٰۃ ہونے کی حدیث میں بھی اس کا بیان گزر چکا ہے ۔ فرمان ہے کہ { جو شخص درود بھیجے اور کہے «اَللّٰہُمَّ أَنْزِلْہُ الْمَقْعَدَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَکَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ» اس کے لیے میری شفاعت قیامت کے دن واجب ہو جائے گی } ۔ ۱؎ (مسند احمد:108/4:ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ دعا منقول ہے «اَللّٰہُمَّ تَقَبَّلْ شَفَاعَۃَ مُحَمَّدٍ الْکُبْرٰی وَارْفَعْ دَرَجَتَہُ الْعُلْیَا وَآتِہ سُؤْلَہ فِی الْأخِرَۃِ وَالْأَوْلٰی کَمَا آتَیْتَ إِبْرَاہیْمَ وَمُوْسٰی علیہما السّلام» ۔ (2) مسجد میں جانے اور مسجد سے نکلنے کے وقت ۔ چنانچہ مسند میں ہے ، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں { جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں جاتے تو درود و سلام پڑھ کر «اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی ذُنُوبِی وَافْتَحْ لِی أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ» پڑھتے اور جب مسجد سے نکلتے تو درود و سلام کے بعد «اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی ذُنُوبِی وَافْتَحْ لِی أَبْوَابَ فَضْلِکَ» پڑھتے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:314 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے ” جب مسجدوں میں جاؤ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا کرو “ ۔ (3) نماز کے آخری قعدہ میں التحیات کا دورد ۔ اس کی بحث پہلی گزر چکی ۔ ہاں اول تشہد میں اسے کسی نے واجب نہیں کہا ۔ البتہ مستحب ہونے کا ایک قول شافعی کا ہے ۔ گو دوسرا قول اس کے خلاف بھی انہی سے مروی ہے ۔ (4) جنازے کی نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا ۔ چنانچہ سنت طریقہ یہ ہے کہ پہلی تکبیر میں سورۃ فاتحہ پڑھے ۔ دوسری میں درود پڑھ ۔ تیسری میں میت کے لیے دعا کرے چوتھی میں « اللہُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَہُ ، وَلَا تَفْتِنَا بَعْدَہُ» پڑھے ۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ { مسنون نماز جنازہ یوں ہے کہ امام تکبیر کہہ کر آہستہ سلام پھیر دے } ۔ ۱؎ (بیہقی فی السنن الکبری:39/4) (5) عید کی نماز میں ۔ سیدنا ابن مسعود ، ابوموسیٰ اور حذیفہ رضی اللہ عنہم کے پاس آ کر ولید بن عقبہ کہتا ہے عید کا دن ہے بتلاؤ تکبیروں کی کیا کفیت ہے ؟ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تکبیر تحریمہ کہہ کر اللہ کی حمد کر اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج ، دعا مانگ پھر تکبیر کہہ کر یہی کر ۔ پھر تکبیر کہہ کر یہی کر ۔ پھر تکبیر کہہ کر یہی کر ۔ پھر تکبیر کہہ کر یہی کر پھر قرأت کر پھر تکبیر کہہ کر رکوع کر پھر کھڑا ہو کر پڑھ اور اپنے رب کی حمد بیان کر اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر صلواۃ پڑھ اور دعا کر اور تکبیر کہہ اور اسی طرح کر پھر رکوع میں جا ۔ حذیفہ اور ابوموسیٰ رضی اللہ عنہم نے بھی اس کی تصدیق کی ۔ ۱؎ (اسماعیل القاضی:88) (6) دعا کے خاتمے پر ۔ ترمذی میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ { دعا آسمان و زمین میں معلق رہتی ہے یہاں تک کہ تو درود پڑھے تب چڑھتی ہے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:486،قال الشیخ الألبانی:حسن) ایک روایت مرفوع بھی اسی طرح کی آئی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ { دعا کے اول میں ، درمیان میں اور آخر میں درود پڑھ لیا کرو } ۔ ایک غریب اور ضعیف حدیث میں ہے کہ { مجھے سوار کے پیالے کی طرح نہ کر لو کہ جب وہ اپنی تمام ضروری چیزیں لے لیتا ہے تو پانی کا کٹورہ بھی بھر لیتا ہے اگر وضو کی ضرورت پڑی تو وضو کر لیا ، پیاس لگی تو پانی پی لیا ورنہ پانی بہاد دیا ۔ دعا کی ابتداء میں دعا کے درمیان میں اور دعا کے آخر میں مجھ پر درود پڑھا کرو } ۔ ۱؎ (ذکرہ ابن الاثیر فی جامع الاصول:155/4:) خصوصاً دعائے قنوت میں درود کی زیادہ تاکید ہے ۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ کلمات سکھائے جنہیں میں وتروں میں پڑھا کرتا ہوں ۔ « اللہُمَّ اہْدِنِی فِیمَنْ ہَدَیْتَ ، وَعَافِنِی فِیمَنْ عَافَیْتَ ، وَتَوَلَّنِی فِیمَنْ تَوَلَّیْتَ ، وَبَارِکْ لِی فِیمَا أَعْطَیْتَ ، وَقِنِی شَرَّمَا قْضَیْتَ ، إِنَّہُ لا یَذِلٰ مَنْ وَالَیْتَ ، تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ» } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1425،قال الشیخ الألبانی:صحیح) نسائی کی روایت میں آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں ۔ «وَصَلَّی اللہُ عَلَی النَّبِیِّ» ۔ ۱؎ (سنن نسائی:1747،قال الشیخ الألبانی:ضعیف و منقطع) (7) جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات میں ۔ مسند احمد میں ہے { سب سے افضل دن جمعہ کا دن ہے ، اسی میں آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے ، اسی میں قبض کئے گئے ، اسی میں نفخہ ہے ، اسی میں بیہوشی ہے ۔ پس تم اس دن مجھ پر بکثرت درود پڑھا کرو ۔ تمہارے درود مجھ پر پیش کئے جاتے ہیں ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو زمین میں دفنا دیئے گئے ہوں گے پھر ہمارے درود آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیسے پیش کئے جائیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ تعالیٰ نے نبیوں کے جسموں کا کھانا زمین پر حرام کر دیا } } ۔ ابوداؤد نسائی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1047،قال الشیخ الألبانی:) ابن ماجہ میں ہے { { جمعہ کے دن بکثرت درود پڑھو اس دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں ۔ جب کوئی مجھ پر درود پڑھتا ہے اس کا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے جب تک کہ وہ فارغ ہو } ۔ پوچھا گیا موت کے بعد بھی ؟ فرمایا : { اللہ تعالیٰ نے زمین پر نبیوں کے جسموں کا گلانا سڑانا حرام کر دیا ہے نبی اللہ زندہ ہیں روزی دیئے جاتے ہیں } } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:1637،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہ حدیث غریب ہے اور اس میں انتقطاع ہے ۔ عبادہ بن نسی نے ابوالدرداء کو پایا نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ بیہقی میں بھی حدیث ہے کہ { جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات مجھ پر بکثرت درود بھیجو } لیکن وہ بھی ضعیف ہے ۔ ایک روایت میں ہے { اس کا جسم زمین نہیں کھاتی جس سے روح القدس نے کلام کیا ہو } ۔ لیکن یہ حدیث مرسل ہے ۔ ایک مرسل حدیث میں بھی جمعہ کے دن اور رات میں درود کی کثرت کا حکم ہے ۔ (8) اسی طرح خطیب پر بھی دونوں خطبوں میں درود و واجب ہے اس کے بغیر صحیح نہ ہوں گے ، اس لیے کہ یہ عبادت ہے اور اس میں ذکر اللہ واجب ہے پس ذکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی واجب ہوگا ۔ جیسے اذان و نماز شافعی رحمہ اللہ اور احمد رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے ۔ (9) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کی زیارت کے وقت ابوداؤد میں ہے { جو مسلمان مجھ پر سلام پڑھتا ہے ۔ اللہ میری روح کو لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دوں } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2041،قال الشیخ الألبانی:حسن) ابوداؤد میں ہے { اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ میری قبر پر عرس میلہ نہ لگاؤ ۔ ہاں مجھ پر درود پڑھو گو تم کہیں بھی ہو لیکن تمہارا درود مجھ تک پہنچایا جاتا ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2042،قال الشیخ الألبانی:صحیح) قاضی اسماعیل بن اسحاق اپنی کتاب فضل الصلوۃ میں ایک روایت لائے ہیں کہ { ایک شخص ہر صبح روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر آتا تھا اور درود سلام پڑھتا تھا ۔ ایک دن اس سے سیدنا علی بن حسین بن علی رضی اللہ عنہ نے کہا تم روز ایسا کیوں کرتے ہو ؟ اس نے جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کرنا مجھے بہت مرغوب ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” سنو میں تمہیں ایک حدیث سناؤں میں نے اپنے باپ سے انہوں نے میرے دادا سے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { میری قبر کو عید نہ بناؤ ۔ نہ اپنے گھروں کو قبریں بناؤ جہاں کہیں تم ہو وہیں سے مجھ پر درود و سلام بھیجو وہ مجھے پہنچ جاتے ہیں } } ۔ ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:469:ال الشیخ الألبانی:صحیح) اس کی اسناد میں ایک راوی مبہم ہے جس کا نام مذکور نہیں اور سند سے یہ روایت مرسل مروی ہے ۔ سیدنا حسن بن حسن بن علی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ { انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس کچھ لوگوں کو دیکھ کر انہیں یہ حدیث سنائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر میلہ لگانے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روک دیا ہے } ۔ ممکن ہے ان کی کسی بے ادبی کی وجہ سے یہ حدیث آپ کو سنانے کی ضرورت پڑی ہو مثلاً وہ بلند آواز سے بول رہے ہوں ۔ یہ بھی مروی ہے کہ { آپ رحمہ اللہ نے ایک شخص کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ پر پے در پے آتے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ { تو اور جو شخص اندلس میں ہے جہاں کہیں تم ہو وہیں سے سلام بھیجو تمہارے سلام مجھے پہنچا دیئے جاتے ہیں } } ۔ ۱؎ (طبرانی اوسط:367:صحیح بالشواہد) طبرانی میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ { یہ خاص راز ہے اگر تم مجھ سے نہ پوچھتے تو میں بھی نہ بتاتا ۔ سنو میرے ساتھ دو فرشتے مقرر ہیں جب میرا ذکر کسی مسلمان کے سامنے کیا جاتا ہے اور وہ مجھ پر درود بھیجتا ہے تو وہ فرشتے کہتے ہیں اللہ تجھے بخشے ۔ اور خود اللہ اور اس کے فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں } } ۔ ۱؎ (طبرانی:2753:موضوع) یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اور اس کی سند بہت ہی ضعیف ہے ۔ مسند احمد میں ہے { اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہیں جو زمین میں چلتے پھرتے رہتے ہیں میری امت کے سلام مجھ تک پہنچاتے رہتے ہیں } ۔ ۱؎ (سنن نسائی:1283،قال الشیخ الألبانی:صحیح) نسائی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ { جو میری قبر کے پاس سے مجھ پر سلام پڑھتا ہے اسے میں سنتا ہوں اور جو دور سے سلام بھیجتا ہے اسے میں پہنچایا جاتا ہوں } ۔ ۱؎ (العقیلی فی الضعفاء:136/4:ضعیف) یہ حدیث سنداً صحیح نہیں محمد بن مروان سدی صغیر متروک ہے ۔ (10) ہمارے ساتھیوں کا قول ہے کہ احرام والا جب لبیک پکارے تو اسے بھی درود پڑھنا چاہیئے ۔ دارقطنی وغیرہ میں قاسم بن محمد بن ابوکر صدیق رحمہ اللہ کا فرمان مروی ہے کہ ” لوگوں کو اس بات کا حکم کیا جاتا تھا “ ۔ صحیح سند سے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا قول مروی ہے کہ { جب تم مکہ پہنچو تو سات مرتبہ طواف کرو ، مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز ادا کرو ۔ پھر صفا پر چڑھو اتنا کہ وہاں سے بیت اللہ نظر آئے وہاں کھڑے رہ کر سات تکبیریں کہو ان کے درمیان اللہ کی حمد و ثناء بیان کرو اور درود پڑھو ۔ اور اپنے لیے دعا کرو پھر مروہ پر بھی اسی طرح کرو } ۔ (11) ہمارے ساتھیوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ذبح کے وقت بھی اللہ کے نام کے ساتھ درود پڑھنا چاہیئے ۔ آیت «وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ» (94-سورۃالشرح:4) سے انہوں نے تائید چاہی ہے کیونکہ اس کی تفسیر میں ہے کہ جہاں اللہ کا ذکر کیا جائے وہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی لیا جائے گا ۔ جمہور اس کے مخالف ہیں وہ کہتے ہیں یہاں صرف ذکر اللہ کافی ہے ۔ جیسے کھانے کے وقت اور جماع کے وقت وغیرہ وغیرہ کہ ان اوقات میں درود کا پڑھنا سنت سے ثابت نہیں ہوا ۔ ایک حدیث میں ہے کہ { اللہ کے تمام انبیاء اور رسولوں علیہم السلام پر بھی صلوٰۃ و سلام بھیجو وہ بھی میری طرح اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں } ، ۱؎ (اسماعیل القاضی:435:ضعیف) لیکن اس کی سند میں دو ضعیف راوی ہیں عمر بن ہارون اور ان کے استاد ۔ کان کی سنسناہٹ کے وقت بھی درود پڑھنا ایک حدیث میں ہے ، اگر اس کی اسناد صحیح ثابت ہو جائے تو ۔ صحیح ابن خزیمہ میں ہے { جب تم میں سے کسی کے کان میں سرسراہٹ ہو تو مجھے ذکر کر کے درود پڑھے اور کہے کہ جس نے مجھے بھلائی سے یاد کیا اسے اللہ بھی یاد کرے } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:120/2:ضعیف) اس کی سند غریب ہے اور اس کے ثبوت میں نظر ہے ۔ مسئلہ مسئلہ : اہل کتاب اس بات کو مستحب جانتے ہیں کہ کاتب جب کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لکھے صلی اللہ علیہ وسلم لکھے ۔ ایک حدیث میں ہے { جو شخص کسی کتاب میں مجھ پر درود لکھے اس کے درود کا ثواب اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک وہ کتاب رہے } ۔ ۱؎ (ابو القاسم الاصبہانی فی الترغیب والترہیب:205/1:ضعیف و باطل) لیکن کئی وجہ سے یہ حدیث صحیح نہیں بلکہ امام ذہبی کے استاد تو اسے موضوع کہتے ہیں ۔ یہ حدیث بہت سے طریق سے مروی ہے لیکن ایک سند بھی صحیح نہیں ۔ امام خطیب بغدادی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب آداب الرادی والسامع میں لکھتے ہیں میں نے امام احمد کی دستی لکھی ہوئی کتاب میں بہت جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دیکھا جہاں درود لکھا ہوا نہ تھا آپ رحمہ اللہ زبانی درود پڑھ لیا کرتے تھے ۔ فصل نبیوں کے سوا غیر نبیوں پر صلوٰۃ بھیجنا اگر تبعاً ہو تو بیشک جائز ہے ۔ جیسے حدیث میں ہے { « اللہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِہِ وَذُرِّیَّتِہِ» } ۔ ہاں صرف غیر نبیوں پر صلوٰۃ بھیجنے میں اختلاف ہے ۔ بعض تو اسے جائز بتاتے ہیں اور دلیل میں آیت «ہُوَ الَّذِی یُصَلِّی عَلَیْکُمْ وَمَلَائِکَتُہُ لِیُخْرِ‌جَکُم مِّنَ الظٰلُمَاتِ إِلَی النٰورِ‌ وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِینَ رَ‌حِیمًا» ۱؎ (33-الأحزاب:43) ، اور «أُولٰئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّ‌بِّہِمْ وَرَ‌حْمَۃٌ وَأُولٰئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُونَ» ۱؎ (2-البقرۃ:157) اور «وَصَلِّ عَلَیْہِمْ إِنَّ صَلَاتَکَ» ۱؎ (9-التوبۃ:103) پیش کرتے ہیں اور یہ حدیث بھی کہ { جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی قوم کا صدقہ آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے « اللہُمَّ صَلِّ عَلَیْہِمْ» } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1798) چنانچہ عبداللہ بن ابی اوفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں { جب میرے والد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا صدقے کا مال لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { « اللہُمَّ ، صَلِّ عَلَی آلِ أَبِی أَوْفَی» } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1078) ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ { ایک عورت نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر اور میرے خاوند پر صلواۃ بھیجئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { «صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ عَلی زَوْجِکِ» } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1533،قال الشیخ الألبانی:صحیح) لیکن جمہور علماء اس کے خلاف ہیں اور کہتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کے سوا اوروں پر خاصتہ صلوٰۃ بھیجنا ممنوع ہے ۔ اس لیے کہ اس لفظ کا استعمال انبیاء علیہم الصلٰوۃ السلام کیلئے اس قدر بکثرت ہو گیا ہے کہ سنتے ہی ذہن میں یہی خیال آتا ہے کہ یہ نام کسی نبی علیہ السلام کا ہے تو احتیاط اسی میں ہے کہ غیر نبی کیلئے یہ الفاظ نہ کہے جائیں ۔ مثلاً ابوبکر صل اللہ علیہ یا علی صلی اللہ علیہ نہ کہا جائے گو معنی اس میں کوئی قباحت نہیں جیسے محمد عزوجل نہیں کہا جاتا ۔ حالانکہ ذی عزت اور ذی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں اس لیے کہ یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کی ذات کیلئے مشہور ہو چکے ہیں اور کتاب و سنت میں صلوٰۃ کا جو استعمال غیر انبیاء کیلئے ہوا ہے وہ بطور دعا کے ہے ۔ اسی وجہ سے آل ابی اوفی کو اس کے بعد کسی نے ان الفاظ سے یاد نہیں کیا نہ جابر رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی رضی اللہ عنہا کو ۔ یہی مسلک ہمیں بھی اچھا لگتا ہے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ بعض ایک اور وجہ بھی بیان کرتے ہیں یعنی یہ کہ غیر انبیاء کیلئے یہ الفاظ صلوٰۃ استعمال کرنا بددینوں کا شیوہ ہو گیا ہے ۔ وہ اپنے بزرگوں کے حق میں یہی الفاظ استعمال کرتے ہیں ۔ پس ان کی اقتداء ہمیں نہ کرنی چاہیئے ۔ اس میں بھی اختلاف ہے کہ یہ مخالفت کس درجے کی ہے حرمت کے طور پر یا کراہیت کے طور پر یا خلاف اولیٰ ۔ صحیح یہ ہے کہ یہ مکروہ تنزیہی ہے ۔ اس لیے کہ بدعتیوں کا طریقہ ہے جس پر ہمیں کاربند ہونا ٹھیک نہیں اور مکروہ وہی ہوتا ہے جس میں نہی مقصود ہو ۔ زیادہ تر اعتبار اس میں اسی پر ہے کہ صلوٰۃ کا لفظ سلف میں نبیوں پر ہی بولا جاتا رہا جیسے کہ عزوجل کا لفظ اللہ تعالیٰ ہی کیلئے بولا جاتا رہا ۔ اب رہا سلام سو اس کے بارے میں شیخ ابو محمد جوینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ بھی صلوٰۃ کے معنی میں ہے پس غائب پر اس کا استعمال نہ کیا جائے اور جو نبی نہ ہو اس کیلئے خاصتہً اسے بھی نہ بولا جائے ۔ پس علی علیہ السلام نہ کہا جائے ۔ زندوں اور مردوں کا یہی حکم ہے ۔ ہاں جو سامنے موجود ہو اس سے خطاب کر کے «سَلَامٌ عَلَیْکَ یَا سَلَامٌ عَلَیْکُمْ یَا السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا عَلَیْکُمْ» کہنا جائز ہے اور اس پر اجماع ہے ۔ یہاں پر یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ عموماً مصنفین کے قلم سے علی علیہ السلام نکلتا ہے یا علی کرم اللہ وجہہ نکلتا ہے گو معنی اس میں کوئی حرج نہ ہو لیکن اس سے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی جناب میں ایک طرح کی سوء ادبی پائی جاتی ہے ۔ ہمیں سب صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ حسن عقیدت رکھنی چاہیئے ۔ یہ الفاظ تعظیم و تکریم کے ہیں اس لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ مستحق ان کے سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور پر صلوٰۃ نہ بھیجنی چاہیئے ۔ ہاں مسلمان مردوں عورتوں کیلئے دعا مغفرت کرنی چاہیئے “ ۔ عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے ایک خط میں لکھا تھا کہ ” بعض لوگ آخرت کے اعمال سے دنیا کے جمع کرنے کی فکر میں ہیں اور بعض مولوی واعظ اپنے خلیفوں اور امیروں کیلئے صلوٰۃ کے ہی الفاظ بولتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے تھے ۔ جب تیرے پاس میرا یہ خط پہنچے تو انہیں کہہ دینا کہ صلوٰۃ صرف نبیوں کیلئے ہیں اور عام مسلمانوں کیلئے اس کے سوا جو چاہیں دعا کریں “ ۔ کعب رحمہ اللہ کہتے ہیں ہر صبح ستر ہزار فرشتے اتر کر قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیتے ہیں اور اپنے پر سمیٹ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے دعا رحمت کرتے رہتے ہیں اور ستر ہزار رات کو آتے ہیں یہاں تک کہ قیامت کے دن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک شق ہو گی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے ۔ ( فرع ) امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” حضور پر صلوٰۃ و سلام ایک ساتھ بھیجنے چاہئیں صرف صلی اللہ علیہ وسلم یا صرف علیہ السلام نہ کہے “ ۔ اس آیت میں بھی دونوں ہی کا حکم ہے پس اولیٰ یہ ہے کہ یوں کہا جائے «صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَسْلِیْماً» ۔