يَحْسَبُونَ الْأَحْزَابَ لَمْ يَذْهَبُوا ۖ وَإِن يَأْتِ الْأَحْزَابُ يَوَدُّوا لَوْ أَنَّهُم بَادُونَ فِي الْأَعْرَابِ يَسْأَلُونَ عَنْ أَنبَائِكُمْ ۖ وَلَوْ كَانُوا فِيكُم مَّا قَاتَلُوا إِلَّا قَلِيلًا
ان کا اب تک یہ خیال ہے کہ دشمن کی فوجیں واپس نہیں گئیں اور اگر وہ فوجیں پھر آجائیں تو ان کی تمنا ہوگی کہ کہیں صحرا میں بدوؤں کے پاس چلے جائیں اور وہیں سے تمہارے حالات پوچھتے رہیں تاہم اگر یہ تمہارے درمیان رہے بھی تولڑائی میں کم ہی حصہ لیں گے
دشمن کا خوف ان کی بزدلی اور ڈرپوکی کا یہ عالم ہے کہ اب تک انہیں اس بات کا یقین ہی نہیں ہوا کہ لشکر کفار لوٹ گیا اور خطرہ ہے کہ وہ پھر کہیں آ نہ پڑے ۔ مشرکین کے لشکروں کو دیکھتے ہی چھکے چھوٹ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کاش کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ اس شہر میں ہی نہ ہوتے بلکہ گنواروں کے ساتھ کسی اجاڑ گاؤں یا کسی دوردراز کے جنگل میں ہوتے کسی آتے جاتے سے پوچھ لیتے کہ کہو بھئی لڑائی کا کیا حشر ہوا ؟ اللہ فرماتا ہے ’ یہ اگر تمہارے ساتھ بھی ہوں تو بے کار ہیں ۔ ان کے دل مردہ ہیں نامردی کے گھن نے انہیں کھوکھلا کر رکھا ہے ۔ یہ کیا لڑیں گے اور کون سی بہادری دکھائیں گے ؟ ‘