إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ
بے شک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے اور وہی بارش برساتا ہے اور جانتا ہے جو کچھ کہ حاملہ عورتوں کے رحموں میں ہے اور کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کل کیا کرے گا اور نہ کوئی شخص یہ جانتا ہے کہ کس سرزمین میں اسے موت آئے گی بے شک اللہ ہی سب باتوں کو جاننے والا اور ہر چیز سے باخبر ہے (٨)۔
غیب کی پانچ باتیں یہ غیب کی وہ کنجیاں ہیں جن کا علم بجز اللہ تعالیٰ کے کسی اور کو نہیں ۔ مگر اس کے بعد کہ اللہ اسے علم عطا فرمائے ۔ قیامت کے آنے کا صحیح وقت نہ کوئی نبی مرسل جانے نہ کوئی مقرب فرشتہ ، اس کا وقت صرف اللہ ہی جانتا ہے اسی طرح بارش کب اور کہاں اور کتنی برسے گی اس کا علم بھی کسی کو نہیں ہاں جب فرشتوں کو حکم ہوتا ہے جو اس پر مقرر ہیں تب وہ جانتے ہیں اور جسے اللہ معلوم کرائے ۔ اسی طرح حاملہ کے پیٹ میں کیا ہے ؟ اسے بھی صرف اللہ ہی جانتا ہے ہاں جب جناب باری تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کو حکم ہوتا ہے جو اسی کام پر مقرر ہیں تب انہیں پتا چلتا ہے کہ نر ہو گا یا مادہ ، لڑکا ہو گا یا لڑکی ، نیک ہو گا یا بد ؟ اسی طرح کسی کو یہ بھی معلوم نہیں کہ کل وہ کیا کرے گا ؟ نہ کسی کو یہ علم ہے کہ وہ کہاں مرے گا ؟ اور آیت میں ہے «وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُوَ» ۱؎ (6-الانعام:59) ’ غیب کی کنجیاں اللہ ہی کے پاس ہیں جنہیں بجز اس کے اور کوئی نہیں جانتا ‘ ۔ اور حدیث میں ہے کہ { غیب کی کنجیاں یہاں پانچ چیزیں ہیں جن کا بیان آیت «اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ» ۱؎ (31-لقمان:34) میں ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:353/5:صحیح) مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { پانچ باتیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی } } ۔ بخاری کی حدیث کے الفاظ تو یہ ہیں کہ { یہ پانچ غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا } ۔۱؎ (صحیح بخاری:1039) مسند احمد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے { مجھے ہر چیز کی کنجیاں دی گئی ہیں سوائے پانچ کے پھر یہی آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی } ۔ ۱؎ (مسند احمد:85/2:صحیح) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے جو ایک صاحب تشریف لائے اور پوچھنے لگے ایمان کیا چیز ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ کو ، فرشتوں کو ،کتابوں کو ، رسولوں کو ، آخرت کو ، مرنے کے بعد جی اٹھنے کو مان لینا } ۔ اس نے پوچھا اسلام کیا ہے ؟ فرمایا : { ایک اللہ کی عبادت کرنا اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا نمازیں پڑھنا ، زکوٰۃ دینا ، رمضان کے روزے رکھنا } ۔ اس نے دریافت کیا احسان کیا ہے ؟ فرمایا : { تیرا اس طرح اللہ کی عبادت کرنا کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو نہیں دیکھتا تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے } ۔ اس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کب ہے ؟ فرمایا : { اس کا علم نہ مجھے اور نہ تجھے ہاں اس کی کچھ نشانیاں میں تمہیں بتادیتا ہوں ۔ جب لونڈی اپنے سردار کو جنے اور جب ننگے پیروں اور ننگے بدنوں والے لوگوں کے سردار بن جائیں ۔ علم قیامت ان پانچ چیزوں میں سے ایک ہے جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا } پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ وہ شخص واپس چلا گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جاؤ اسے لوٹا لاؤ } لوگ دوڑ پڑے لیکن وہ کہیں بھی نظر نہ آیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { یہ جبرائیل علیہ السلام تھے لوگوں کو دین سکھانے آئے تھے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4777) ہم نے اس حدیث کا مطلب شرح صحیح بخاری میں خوب بیان کیا ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ { جبرائیل علیہ السلام نے اپنی ہتھیلیاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں پر رکھ کر یہ سوالات کیے تھے کہ اسلام کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ { تو اپنا چہرہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کر دے اور اللہ کے وحدہ لاشریک ہونے کی گواہی دے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عبد و رسول ہونے کی ۔ جب تو یہ کر لے تو تو مسلمان ہو گیا } ۔ پوچھا ، اچھا ایمان کس کا نام ہے ؟ فرمایا : { اللہ پر ، آخرت کے دن پر ، فرشتوں پر ، کتابوں پر ، نبیوں پر عقیدہ رکھنا ۔ موت اور موت کے بعد کی زندگی کو ماننا ، جنت دوزخ ، حساب ، میزان ، اور تقدیر کی بھلائی برائی پر ایمان رکھنا } ۔ پوچھا جب میں ایسا کر لوں تو مومن ہو جاؤں گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں } ۔ پھر احسان کیا پوچھا اور جواب پایا جو اوپر مذکور ہوا ہے ۔ پھر قیامت کا پوچھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { سبحان اللہ! یہ ان پانچ چیزوں میں ہے جنہیں صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے } ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت تلاوت کی } ۔ پھر نشانیوں میں یہ بھی ذکر ہے کہ { لوگ لمبی چوڑی عمارتیں بنانے لگیں گے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:319/1:حسن بالشواہد) ایک صحیح سند کے ساتھ مسند احمد میں مروی ہے کہ { بنو عامر قبیلے کا ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کہنے لگا میں آؤں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خادم کو بھیجا کہ { جا کر انہیں ادب سکھاؤ یہ اجازت مانگنا نہیں جانتے ۔ ان سے کہو پہلے سلام کرو پھر دریافت کرو کہ میں آسکتا ہوں ؟ } انہوں نے سن لیا اور اسی طرح سلام کیا اور اجازت چاہی یہ گئے اور جا کر کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے کیا لے کر آئے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { بھلائی ہی بھلائی ۔ سنو! تم ایک اللہ کی عبادت کرو لات وعزیٰ کو چھوڑ دو ، دن رات میں پانچ نمازیں پڑھاکرو سال بھر میں ایک مہینے کے روزے رکھو اپنے مالداروں سے زکوٰۃ وصول کر کے اپنے فقیروں پر تقسیم کرو } ۔ انہوں نے دریافت کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا علم میں سے کچھ ایساباقی ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ جانتے ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں ایسا علم بھی ہے جسے بجز اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا } ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھی } ۔ ۱؎ (مسند احمد:369/5:قال الشیخ الألبانی:صحیح) مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں گاؤں کے رہنے والے ایک شخص نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا کہ میری عورت حمل سے ہے بتلائے کیا بچہ ہوگا ؟ ہمارے شہر میں قحط ہے فرمائیے بارش کب ہوگی ؟ یہ تو میں نہیں جانتا کہ میں کب پیدا ہوا لیکن یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم معلوم کرادیجئیے کہ کب مرونگا ؟ اس کے جواب میں یہ آیت اتری کہ ’ مجھے ان چیزوں کا مطلق علم نہیں ‘ ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہی غیب کی کنجیاں ہیں جن کے بارے میں فرمان باری ہے کہ غیب کی کنجیاں صرف اللہ ہی کے پاس ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28173:مرسل) سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ” جو تم سے کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کل کی بات کا جانتے تھے تو سمجھ لینا کہ وہ سب سے بڑا جھوٹا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہو گا “ ۔ قتادۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کا علم اللہ تعالیٰ نے کسی کو نہیں دیا نہ نبی کو نہ فرشتہ کو اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے کوئی نہیں جانتا کہ کس سال کس مہینے کس دن یا کس رات میں وہ آئے گی ۔ اسی طرح بارش کا علم بھی اس کے سوا کسی کو نہیں کہ کب آئے ؟ اور کوئی نہیں جانتا کہ حاملہ کے پیٹ میں بچہ نر ہو گا یا مادہ سرخ ہو گا یا سیاہ ؟ اور کوئی نہیں جانتا کہ کل وہ نیکی کرے گا یا بدی کرے گا ؟ مرے گا یا جئے گا بہت ممکن ہے کل موت یا آفت آ جائے ۔ نہ کسی کو یہ خبر ہے کہ کس زمین میں وہ دبایا جائے گا یا سمندر میں بہایا جائے گا یا جنگل میں مرے گا یا نرم یاسخت زمین میں جائے گا “ ۔ حدیث شریف میں ہے { جب کسی کو موت دوسری زمین میں ہوتی ہے تو اس کا وہیں کا کوئی کام نکل آتا ہے اور وہیں موت آ جاتی ہے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2146،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور روایت میں ہے کہ { یہ فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی } ۔ اعشی ہمدان کے شعر ہیں جن میں اس مضمون کو نہایت خوبصورتی سے ادا کیا ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ { قیامت کے دن زمین اللہ تعالیٰ سے کہے گی کہ یہ ہیں تیری امانتیں جو تو نے مجھے سونپ رکھی تھیں } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4263،قال الشیخ الألبانی:صحیح) طبرانی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» سورہ لقمان کی تفسیر ختم ہوئی ۔