اللَّهُ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَيَبْسُطُهُ فِي السَّمَاءِ كَيْفَ يَشَاءُ وَيَجْعَلُهُ كِسَفًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ ۖ فَإِذَا أَصَابَ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ
یہ اللہ ہی کی کارفرمائی ہے کہ پہلے ہوائیں چلتی ہی پھر ہوائیں بادل کو حرکت میں لاتی ہیں پھر وہ (اللہ) جس طرح چاہتا ہے انہیں فضا میں پھیلا دیتا ہے اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو کہ بادلوں میں سے مینہ نکل رہا ہے پھر جن لوگوں کو بارش کی یہ برکت ملنی تھی وہ خوش ہوجاتے ہیں
ناامیدی کے اندھیروں میں امید کے اجالے رحمت و زحمت کی ہوائیں اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ ’ وہ ہوائیں بھیجتا ہے جو بادلوں کو اٹھاتی ہیں یا تو سمندر پر سے یا جس طرح اور جہاں سے اللہ کا حکم ہو ۔ پھر رب العالمین ابر کو آسمان پر پھیلا دیتا ہے اسے بڑھا دیتا ہے تھوڑے کو زیادہ کر دیتا ہے ‘ ۔ تم نے اکثر دیکھا ہو گا کہ بالشت دو بالشت کا ابر اٹھا پھر جو وہ پھیلا تو آسمان کے کنارے ڈھانپ لیے ۔ اور کبھی یہ بھی دیکھا ہوگا کہ سمندروں سے پانی کے بھرے ابر اٹھتے ہیں ۔ اسی مضمون کو آیت «وَہُوَ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ» ۱؎ (7-الاعراف:57) ، میں بیان فرمایا ہے پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے اور تہہ بہ تہہ کر دیتا ہے ۔ وہ پانی سے سیاہ ہو جاتے ہیں ۔ زمین کے قریب ہو جاتے ہیں ۔ پھر بارش ان بادلوں کے درمیان سے برسنے لگتی ہے جہاں برسی وہیں کے لوگوں کی باچھیں کھل گئیں ۔ پھر فرماتا ہے ’ یہی لوگ بارش سے ناامید ہو چکے تھے اور پوری نا امیدی کے وقت بلکہ نا امیدی کے بعد ان پر بارشیں برسیں اور جل تھل ہوگئے ‘ ۔ دو دفعہ «مِنْ قَبْلِ» کا لفظ لانا تاکید کے لیے ہے ۔ «ہٖ» کی ضمیر کا مرجع «اِنْزَال» ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ تاسیسی دلالت ہو ۔ یعنی بارش ہونے سے پہلے یہ اس کے محتاج تھے اور وہ حاجت پوری ہو اس سے پہلے یہ اس کے محتاج تھے اور وہ حاجت پوری ہو اس سے پہلے وقت کے ختم ہو جانے کے قریب بارش نہ ہونے کی وجہ سے یہ مایوس ہو چکے تھے ۔ پھر اس نا امیدی کے بعد دفعتاً ابر اٹھتا ہے اور برس جاتا ہے اور ریل پیل کر دیتا ہے ۔ اور ان کی خشک زمین تر ہو جاتی ہے قحط سالی ترسالی سے بدل جاتی ہے ۔ یا تو زمین صاف چٹیل میدان تھی یا ہر طرف ہریاول دکھائی دینے لگتی ہے ۔ دیکھ لو کہ پروردگار عالم بارش سے کس طرح مردہ زمین کو زندہ کر دیتا ہے ، یاد رکھو جس رب کی یہ قدرت تم دیکھ رہے وہ ایک دن مردوں کو ان قبروں سے بھی نکالنے والا ہے ۔ حالانکہ ان کے جسم گل سڑگئے ہونگے ۔ سمجھ لو کہ اللہ ہرچیز پر قادر ہے ۔ پھر فرماتا ہے ’ اگر ہم باد تند چلائیں اگر آندھیاں آ جائیں اور ان کی لہلاتی ہوئی کھیتیاں پژمردہ ہو جائیں تو وہ پھر سے کفر کرنے لگ جاتے ہیں ‘ ۔ چنانچہ سورۃ الواقعہ میں بھی یہی بیان ہوا ہے ۔ آیت «اَفَرَءَیْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ» ۱؎ (56-الواقعۃ:63) سے «بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ» ۱؎ (56-الواقعۃ:67) تک ۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہوائیں آٹھ قسم کی ہیں چار رحمت کی چار زحمت کی ۔ ناشرات ، مبشرات ، مرسلات اور ذاریات تو رحمت کی ہیں ۔ اور عقیم ، صرصر ، عاصف اور قاصف عذاب کی ۔ ان میں پہلی دو خشکیوں کی ہیں اور آخری دو تری کی ۔ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ہوائیں دوسری سے مسخر ہیں یعنی دوسری زمین سے ۔ جب اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کی ہلاکت کا ارادہ کیا تو ہواؤں کے داروغہ کو یہ حکم دیا اس نے دریافت کیا کہ جناب باری تعالیٰ کیا ہواؤں کے خزانے میں اتنا سوراخ کر دوں جتنا بیل کا نتھا ہوتا ہے ؟ تو فرمان اللہ ہوا کہ ’ نہیں نہیں اگر ایسا ہوا تو کل زمین اور زمین کی پوری چیزیں الٹ پلٹ ہو جائیں گی ۔ اتنا نہیں بلکہ اتنا روزن کر جتنا انگوٹھی میں نگینہ ہوتا ہے ‘ ۔ اب صرف اتنے سوراخ سے وہ ہوا چلی جو جہاں پہنچی وہاں بھس اڑادیا ۔ جس چیز پر سے گزری اسے بے نشان کر دیا } } ۔ یہ حدیث غریب ہے اور اس کا مرفوع ہونا مکروہ ہے ۔ زیادہ ظاہر یہی ہے کہ یہ خود سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کا قول ہے ۔ ۱؎ [ (ضعیف) :اسکی سند میں درج راوی ضعیف ہے]