وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ فَإِذَا أُوذِيَ فِي اللَّهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللَّهِ وَلَئِن جَاءَ نَصْرٌ مِّن رَّبِّكَ لَيَقُولُنَّ إِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ ۚ أَوَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِمَا فِي صُدُورِ الْعَالَمِينَ
اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے، مگر جب اللہ کی راہ میں انہیں کوئی اذیت پہنچتی ہے تو وہ لوگوں کی ایذارسانی کو اللہ کا عذاب سمجھ لیتا ہے اور اگر آپ کے رب کی جانب سے کوئی مدد پہنچتی ہے تو یہی لوگ کہنے لگتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھ رہے ہیں (کیا وہ یہ کہہ رہے ہیں) کیا اللہ تعالیٰ ان چھپے ہوئے بھیدوں سے واقف نہیں جودنیا کے سینوں میں مدفون ہیں؟۔
مرتد ہونے والے ان منافقوں کا ذکر ہو رہا ہے جو زبانی ایمان کا دعویٰ کر لیتے ہیں لیکن جہاں مخالفین کی طرف سے کوئی دکھ پہنچا کہ یہ اسے اللہ کا عذاب سمجھ کر مرتد ہو جاتے ہیں ۔ یہی معنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے کئے ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَمِنَ النَّاسِ مَن یَعْبُدُ اللہَ عَلَیٰ حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَہُ خَیْرٌ اطْمَأَنَّ بِہِ وَإِنْ أَصَابَتْہُ فِتْنَۃٌ انقَلَبَ عَلَیٰ وَجْہِہِ خَسِرَ الدٰنْیَا وَالْآخِرَۃَ ذٰلِکَ ہُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِینُ» ۱؎ (22-الحج:11) یعنی ’ بعض لوگ ایک کنارے کھڑے ہو کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں اگر راحت ملی تو مطمئن ہو گئے اور اگر مصیبت پہنچی تو منہ پھیر لیا ۔ ‘ یہاں یہی بیان ہو رہا ہے کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی غنیمت ملی ، کوئی فتح ملی تو اپنا دیندار ہونا ظاہر کرنے لگتے ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے «الَّذِینَ یَتَرَبَّصُونَ بِکُمْ فَإِن کَانَ لَکُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللہِ قَالُوا أَلَمْ نَکُن مَّعَکُمْ وَإِن کَانَ لِلْکَافِرِینَ نَصِیبٌ قَالُوا أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَیْکُمْ وَنَمْنَعْکُم مِّنَ الْمُؤْمِنِینَ فَ اللہُ یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَن یَجْعَلَ اللہُ لِلْکَافِرِینَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ سَبِیلًا» ۱؎ (4-النساء:141) یعنی ’ وہ تمہیں دیکھتے رہتے ہیں اگر فتح و نصرت ہوئی تو ہانک لگانے لگتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں ہیں ؟ اور اگر کافروں کی بن آئی تو ان سے اپنی ساز جتانے لگتے ہیں کہ دیکھو ہم نے تمہارا ساتھ دیا اور تمہیں بچا لیا ۔ ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : بہت ممکن ہے کہ اللہ اپنے بندوں کو بالکل ہی غالب کر دے پھر تو یہ اپنی اس چھپی ہوئی حرکت پر صاف نادم ہو جائیں ۔ یہاں فرمایا کہ یہ کیا بات ہے ؟ انہیں اتنا بھی نہیں معلوم کہ اللہ عالم الغیب ہے ۔ وہ جہاں زبانی بات جانتا ہے وہاں قلبی بات بھی اسے معلوم ہے ۔ اللہ تعالیٰ بھلائیاں ، برائیاں پہنچا کر نیک و بد کو مومن ومنافق کو الگ الگ کر دے گا ۔ نفس کے پرستار ، نفع کے خواہاں یکسو ہو جائیں گے اور نفع نقصان میں ایمان کو نہ چھوڑنے والے ظاہر ہو جائیں گے ۔ جیسے فرمایا «وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ حَتَّیٰ نَعْلَمَ الْمُجَاہِدِینَ مِنکُمْ وَالصَّابِرِینَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَکُمْ» ۱؎ (47-محمد:31) ’ ہم تمہیں آزماتے رہا کریں گے یہاں تک کہ تم میں سے مجاہدین کو اور صابرین کو ہم دنیا کے سامنے ظاہر کر دیں اور تمہاری خبریں دیکھ بھال لیں ۔ ‘ احد کے امتحان کا ذکر کر کے فرمایا کہ اللہ مومنوں کو جس حالت پر وہ تھے ، رکھنے والا نہ تھا جب تک کہ خبیث و طیب کی تمیز نہ کر لے ۔