سورة النمل - آیت 7

إِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِأَهْلِهِ إِنِّي آنَسْتُ نَارًا سَآتِيكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ آتِيكُم بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ان کے سامنے یہ واقعہ بیان کیجئے) جب موسیٰ نے اپنے گھروالوں سے کہا کہ میں نے ایک آگ سی دیکھی ہے میں وہاں سے یا تو (راستے کی) کوئی خبر لاتا ہوں یا آگ کا شعلہ لاتا ہوں تاکہ تم اس آگ سے گرمی حاصل کرو (٢)

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

آگ لینے گئے رسالت مل گئی اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ یاد دلارہا ہے کہ اللہ نے انہیں کس طرح بزرگ بنایا اور ان سے کلام کیا اور انہیں زبردست معجزے عطا فرمائے اور فرعون اور فرعونیوں کے پاس اپنا رسول بنا کر بھیجا لیکن کفارنے آپ کا انکار کیا اپنے کفر وتکبر سے نہ ہٹے آپ کی اتباع اور پیروی نہ کی ۔ فرماتا ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام اپنی اہل کو لے کر چلے اور راستہ بھول گئے رات آ گئی اور وہ بھی سخت اندھیرے والی ۔ تو آپ نے دیکھا کہ ایک جانب سے آگ کا شعلہ سا دکھائی دیتا ہے آپ نے اپنی اہل سے فرمایا کہ تم تو یہیں ٹھہرو ۔ میں اس روشنی کے پاس جاتا ہوں کیا عجب کہ وہاں سے جو ہو اس سے راستہ معلوم ہو جائے یا میں وہاں کچھ آگ لے آؤں کہ تم اسے ذرا سینک تاپ کر لو ۔ ایسا ہی ہوا کہ آپ وہاں سے ایک بڑی خبر لائے اور بہت بڑا نور حاصل کیا فرماتا ہے کہ جب وہاں پہنچے اس منظر کو دیکھ کر حیر ان رہ گئے دیکھتے ہیں کہ سرسبز درخت ہے اس پر آگ لپٹی رہی شعلے تیز ہو رہے ہیں اور درخت کی سرسبزی اور بڑھ رہی ہے ۔ اونچی نگاہ کی تو دیکھا کہ وہ نور آسمان تک پہنچا ہوا ہے ۔ فی الوقع وہ آگ نہ تھی بلکہ نور تھا اور نور بھی رب العالمین وحدہ لاشریک کا ۔ موسیٰ علیہ السلام متعجب تھے اور کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی تھی ۔ کہ یکایک ایک آواز آتی ہے کہ اس نور میں جو کچھ ہے وہ پاکی والا اور بزرگی والا ہے اور اس کے پاس جو فرشتے ہیں وہ بھی مقدس ہیں ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ سوتا نہیں اور نہ اسے سونا لائق ہے وہ ترازو کو پست کرتا ہے اور اونچی کرتا ہے رات کے کام اس کی طرف دن سے پہلے اور دن کے کام رات سے پہلے چڑھ جاتے ہیں ۔ اس کا حجاب نور یا آگ ہے اگر وہ بٹ جائیں تو اس کے چہرے کی تجلیاں ہرچیز کو جلادیں جس پر اس کی نگاہ پہنچ رہی ہے یعنی کل کائنات کو ۔ ابوعبیدہ رحمہ اللہ راوی حدیث نے یہ حدیث بیان فرما کر یہی آیت تلاوت کی ۔ یہ الفاظ ابن ابی حاتم کے ہیں اور اس کی اصل صحیح مسلم میں ہے ۔ پاک ہے وہ اللہ جو تمام جہانوں کا پالنہار ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے مخلوق میں سے کوئی بھی اس کے مشابہ نہیں ۔ اس کی مصنوعات میں سے کوئی چیز کسی کے احاطے میں نہیں ۔ وہ بلند و بالا ہے ساری مخلوق سے الگ ہے زمین و آسمان اسے گھیر نہیں سکتے وہ احد وصمد ہے وہ مخلوق کی مشابہت سے پاک ہے ۔ پھر خبر دی کہ خود اللہ تعالیٰ ان سے خطاب فرما رہا ہے وہی اسی وقت سرگوشیاں کر رہا ہے جو سب پر غالب ہے سب اس کے ماتحت اور زیر حکم ہیں ۔ وہ اپنے اقوال وافعال میں حکمت والا ہے اس کے بعد جناب باری عزوجل نے حکم دیا کہ اے موسیٰ اپنی لکڑی کو زمین پر ڈال دو تاکہ تم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکو کہ اللہ تعالیٰ فاعل مختار ہے وہ ہرچیز پر قادر ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے ارشاد سنتے ہی لکڑی کو زمین پر گرایا ۔ اسی وقت وہ ایک پھن اٹھائے پھنکارتا ہوا سانپ بن گئی اور بہت بڑے جسم کا سانپ بڑی ڈراؤنی صورت اس موٹاپے پر تیز تیز چلنے والا ۔ ایسا جیتا جاگتا چلتا پھرتا زبردست اژدہا دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام خوف زدہ ہو گئے «جان» کا لفظ قرآن کریم میں ہے یہ ایک قسم کے سانپ ہیں جو بہت تیزی سے حرکت کرنے والے اور کنڈلی لگانے والے ہوتے ہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھروں میں رہنے والے ایسے سانپوں کے قتل سے ممانعت فرمائی ہے ۔ } الغرض جناب موسیٰ اسے دیکھ کر ڈرے اور دہشت کے مارے ٹھہر نہ سکے اور منہ موڑ کر پیٹھ پھیر کر وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے ایسے دہشت زدہ تھے کہ مڑ کر بھی نہ دیکھا ۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ نے آواز دی کہ موسیٰ ڈرو نہیں ۔ میں تو تمہیں اپنا برگزیدہ رسول اور ذی عزت پیغمبر بنانا چاہتا ہوں ۔ اس کے بعد استثناء منقطع ہے اس آیت میں انسان کے لیے بہت بڑی بشارت ہے کہ جس نے بھی کوئی برائی کا کام کیا ہو پھر وہ اس پر نادم ہو جائے اس کام کو چھوڑ دے توبہ کر لے اللہ تعالیٰ کی طرف جھک جائے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمالیتا ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے « وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اہْتَدٰی» ۱؎ (20-طہ:82) ’ جو بھی توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے اور راہ راست پر چلے میں اس کے گناہوں کو بخشنے والا ہوں ‘ اور فرمان ہے آیت «وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا » (4-النساء:110) ’ جو شخص کسی برائی کا مرتکب ہو جائے یا کوئی گناہ کر بیٹھے پھر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے تو وہ یقیناً اللہ تعالیٰ کو غفور ورحیم پائے گا ۔ ‘ اس مضمون کی آیتیں کلام الہٰی میں اور بھی بہت ساری ہیں ۔ لکڑی کے سانپ بن جانے کے معجزے کے ساتھ ہی کلیم اللہ کو اور معجزہ دیا جاتا ہے کہ آپ جب بھی اپنے گریبان میں ہاتھ ڈال کر نکالیں گے تو وہ چاند کی طرح چمکتا ہو کر نکلے گا یہ دو معجزے ان نو [9] معجزوں میں سے ہیں کہ جن سے میں تیری وقتا فوقتا تائید کرتا رہونگا ۔ تاکہ فاسق فرعون اور اس کی فاسق قوم کے دلوں میں تیری نبوت کا ثبوت جگہ پکڑجائے یہ نو [9] معجزے وہ تھے جن کا ذکر آیت «وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی تِسْعَ اٰیٰتٍۢ بَیِّنٰتٍ فَسْــــَٔـلْ بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ اِذْ جَاۗءَہُمْ فَقَالَ لَہٗ فِرْعَوْنُ اِنِّیْ لَاَظُنٰکَ یٰمُوْسٰی مَسْحُوْرًا» ۱؎ (17-الإسراء:101) میں ہے جس کی پوری تفسیر بھی اس آیت کے تحت میں گزر چکی ہے ۔ جب یہ واضح ظاہر صاف اور کھلے معجزے فرعونیوں کو دکھائے گئے تو وہ اپنی ضد میں آ کر کہنے لگے یہ تو جادو ہے لو ہم اپنے جادوگروں کو بلالیتے ہیں مقابلہ کر لو اس مقابلہ میں اللہ نے حق کو غالب کیا اور سب لوگ زیر ہو گئے مگر پھر بھی نہ مانے ۔ گو دلوں میں اس کی حقانیت جم چکی تھی ۔ لیکن ظاہر مقابلہ سے ہٹے ۔ صرف ظلم اور تکبر کی بنا پر حق کو جھٹلاتے رہے اب تو دیکھ لے کہ ان مفسدوں کا انجام کس طرح حیرتناک اور کیسا کچھ عبرت ناک ہوا ؟ ایک ہی مرتبہ ایک ہی ساتھ سارے کے سارے دریا برد کر دئے گئے ۔ پس اے آخری نبی الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے جھٹلانے والو تم اس نبی کو جھٹلا کر مطمئن نہ بیٹھو ۔ کیونکہ یہ تو موسیٰ علیہ السلام سے بھی اشرف وافضل ہیں ان کی دلیلیں اور معجزے بھی ان کی دلیلوں اور معجزوں سے بڑے ہیں خود آپ کا وجود آپ کے عادات واخلاق اور اگلی کتابوں کی اور اگلے نبیوں کی آپ کی نسبت بشارتیں اور ان سے اللہ کا عہد پیمان یہ سب چیزیں آپ میں ہیں پس تمہیں نہ مان کر نڈر اور بیخوف نہ رہنا چاہیئے ۔