وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
اور (دیکھو) اگر تمہیں اس (کلام) کی سچائی میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر (یعنی پیغمبر اسلام پر) نازل کیا ہے۔ تو (اس کا فیصلہ بہت آسان ہے۔ اگر یہ محض ایک انسانی دماغ کی بناوت ہے، تو تم بھی انسان ہو۔ زیادہ نہیں) اس کی سی ایک سورت ہی بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جن (طاقتوں) کو تم نے اپنا حمایتی سمجھ رکھا ہے ان سب کو بھی اپنی مدد کے لیے بلا لو
تصدیق نبوت اعجاز قرآن توحید کے بعد اب نبوت کی تصدیق کی جا رہی ہے کفار مکہ کو خطاب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ ہم نے جو قرآن پاک اپنے بندے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا ہے اسے اگر تم ہمارا کلام نہیں مانتے تو تم اور تمہارے مددگار سب مل کر پورا قرآن نہیں صرف ایک سورت تو اس جیسی بنا لاؤ ۔ جب تم ایسا نہیں کر سکتے اور اس سے عاجز ہو تو پھر اس قرآن کے کلام اللہ ہونے میں کیوں شک کرتے ہو ؟ «شُھَدَاءَ» سے مراد مددگار اور شریک ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:376/1) جو ان کی مدد اور موافقت کیا کرتے تھے ، مطلب یہ ہے کہ جنہیں تم اپنا معبود بنا رکھا ہے انہیں بھی بلا لو اور اان سے بھی مدد چاہو پھر اس جیسی ایک سورت ہی تو بنا لاؤ ۔ حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تم اپنے حاکموں اور اپنے زبان دانوں فصیح و بلیغ لوگوں سے بھی مدد لے لو ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:85/1) قرآن پاک کے اس معجزے کا اظہار اور ایسا انداز خطاب کئی جگہ ہے سورۃ قص میں ہے آیت «قُلْ فَاْتُوْا بِکِتٰبٍ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ ہُوَ اَہْدٰی مِنْہُمَآ اَتَّبِعْہُ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ» ( 28 ۔ القصص : 49 ) یعنی اگر تم سچے ہو تو ان دونوں سے ( یعنی توریت و قرآن سے ) زیادہ ہدایت والی کوئی اور اللہ کی کتاب لاؤ تو میں بھی اس کی تابعداری کروں گا ۔ سورۃ بنی اسرائیل میں فرمایا آیت «قُلْ لَّیِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنٰ عَلٰٓی اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًا» ( 17 ۔ الاسراء : 88 ) یعنی اگر تمام جنات اور انسان جمع ہو کر اور ہر ایک دوسرے کی مدد کے ساتھ یہ چاہیں کہ اس جیسا قرآن بنائیں تو بھی ان کے امکان میں نہیں سورۃ ہود میں فرمایا آیت «اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰیہُ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہٖ مُفْتَرَیٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ» (11-ہود:13) یعنی کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ قرآن کو خود اس پیغمبر نے گھڑ لیا تم کہو کہ اگر تم سچے ہو تو تم سب مل کر اور اللہ کے سوا جنہیں تم بلا سکتے ہو بلا کر اس جیسی دس سورتیں ہی بنا لاؤ ۔ سورۃ یونس میں ہے آیت «وَمَا کَانَ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ یٰفْتَرٰی مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلٰکِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَتَفْصِیْلَ الْکِتٰبِ لَا رَیْبَ فِیْہِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ أَمْ یَقُولُونَ افْتَرَاہُ قُلْ فَأْتُوا بِسُورَۃٍ مِّثْلِہِ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللہِ إِن کُنتُمْ صَادِقِینَ» ( 10 ۔ یونس : 38 ، 37 ) یعنی یہ قرآن اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کی طرف سے گھڑا ہوا نہیں بلکہ یہ اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا اور کتاب تفصیل ہے جس کے اللہ کا کلام ہونے میں کوئی شک نہیں جو رب العالمین کی طرف سے ہے کیا یہ لوگ اسے خود ساختہ کہتے ہیں ان سے کہو کہ اللہ کے سوا ہر شخص کو بلا کر اس قرآن کی سینکڑوں سورتوں میں سے ایک چھوٹی سی سورت جیسی سورت تو بنا لاؤ تاکہ تمہارا سچ ظاہر ہو ۔ یہ تمام آیتیں مکہ مکرمہ میں نازل ہوئیں اور اہل مکہ کو اس کے مقابلہ میں عاجز ثابت کر کے پھر مدینہ شریف میں بھی اس مضمون کو دہرایا گیا اوپر کی آیت «َمْثِلہِ» کی ضمیر کو بعض نے قرآن کی طرف لوٹایا ہے یعنی کوئی سورت اس قرآن جیسی لاؤ ۔ بعض نے یہ ضمیر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹائی ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کوئی امی ایسا ہو ہی نہیں سکتا ہے کہ کچھ پڑھا ہوا نہ ہونے کے باوجود وہ کلام کہے جس کا مثل کسی سے نہ بن سکے لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے ۔ مجاہد ، قتادہ رحمہ اللہ علیہما ، سیدنا عمرو بن مسعود ابن عباس رضی اللہ عنہما ، حسن بصری رحمہ اللہ اور اکثر محققین کا یہی قول ہے امام ابن جریر ، طبری ، زمحشری ، رازی رحمہ اللہ علیہم نے بھی اسی کو پسند کیا ہے اس کی ترجیح کی وجوہات بہت سی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ اس میں سب کو ڈانٹ ڈپٹ بھی ہے اجتماعی اور الگ الگ بھی ۔ خواہ وہ امی اور ان پڑھ ہوں یا اہل کتاب اور پڑھے لکھے ہوں اس میں اس معجزے کا کمال ہے اور بہ نسبت اس کے کہ صرف ان پڑھ لوگوں کو عاجز کیا جائے اس میں زیادہ مبالغہ ہے پھر دس سورتوں کا مطالبہ کرنا اس کی مثل نہ لا سکنے کی پیشنگوئی کرنا بھی اسی حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ اس سے مراد قرآن ہے نہ کہ ذات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پس اس عام اعلان سے جو باربار کیا گیا اور ساتھ ہی پیشنگوئی بھی کر دی گئی کہ یہ لوگ اس پر قادر نہیں ۔ مکہ میں اور مدینہ میں بار ہا اس کا اعادہ کیا گیا اور وہ لوگ جن کی مادری زبان عربی تھی جنہیں اپنی فصاحت اور بلاغت پر ناز تھا جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی دشمنی پر ادھار کھا بیٹھے تھے وہ درحقیقت اس سے عاجز آ گئے نہ پورے قرآن کا جواب دے سکے نہ دس سورتوں کا ، نہ ایک سورت کا ۔ پس ایک معجزہ تو یہ ہے کہ اس جیسی ایک چھوٹی سی سورت بھی وہ نہ بنا سکے دوسرا معجزہ یہ ہے کہ پیشنگوئی سچ ثابت ہوئی کہ یہ ہرگز اس جیسا نہیں بنا سکتے چاہے سب جمع ہو جائیں اور قیامت تک محنت کر لیں ۔ پس ایسا ہی ہوا نہ تو اس زمانہ میں کسی کی یہ جرات ہوئی نہ اس کے بعد سے آج تک اور نہ قیامت تک کسی سے یہ ہو سکے گا اور بھلا کیسے ہو سکتا ؟ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات بے مثل اسی طرح اس کا کلام بھی ۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ قرآن پاک کو بیک نظر دیکھنے سے ہی اس کے ظاہری اور باطنی لفظی اور معنوی ایسے ایسے کمالات ظاہر ہوتے ہیں جو مخلوق کے بس کے نہیں خود رب العالمین فرماتا ہے آیت «الرٰ کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍ» (11-ہود:1) یعنی اس کتاب کی آیتیں جو حکمت والے ہر طرح کی خبریں جاننے والے اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے محکم مضبوط اور مفصل الگ الگ ہیں ۔ پس الفاظ محکم اور معانی مفصل یا الفاظ مفصل اور معانی محکم پس قرآن اپنے الفاظ میں اور اپنے مضامین میں بے نظیر ہے جس کے مقابلے ، معارضے اور مثل سے دنیا عاجز اور بے بس ہے ۔ اس پاک کلام میں اگلی خبریں جو دنیا سے پوشیدہ تھیں وہ ہو بہو بیان کی گئیں آنے والے امور کے تذکرے کئے گئے جو لفظ بہ لفظ پورے اترے ۔ تمام بھلائیوں کا حکم تمام برائیوں سے ممانعت اس میں ہے ۔ سچ ہے آیت «وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلًا» ( 6 ۔ الانعام : 115 ) یعنی خبروں میں صداقت اور احکام میں عدل تیرے رب کے کلام میں پورا پورا ہے ۔ پاکیزہ قرآن تمام تر حق و صداقت و ہدایت سے پر ہے نہ اس میں واہی تواہی باتیں ہیں نہ ہنسی مذاق نہ کذب و افترا جو شاعروں کے کلام میں عموماً پایا جاتا ہے بلکہ ان کے اشعار کی قدر و قیمت ہی اس پر ہے مقولہ مشہور ہے کہ «اعذبہ اکذبہ» جوں جھوٹ زیادہ اتنا ہی مزید ۔ سر تم دیکھو گے کہ لمبے لمبے پر زور قصیدے مبالغہ اور کذب آمیز یا تو عورتوں کی تعریف و توصیف میں ہوں گے یا گھوڑوں کی اور شراب کی ستائش میں ہوں گے یا کسی انسان کی بڑھی چڑھی مدح و تعریف میں ہوں گے یا اونٹنیوں کی آرائش و زیبائش یا بہادری کے مبالغہ آمیز گیت یا لڑائیوں کی چالبازیوں یا ڈر خوف کے خیالی منظروں کے بیان میں ہوں گے جن سے کوئی فائدہ نہیں ۔ نہ دین کا نہ دنیا کا صرف شاعر کی زبان دانی اور اس کی قدرت کلام ظاہر ہوتی ہے ۔ نہ اخلاق پر ان سے کوئی عمدہ اثر نہ اعمال پر ۔ پھر نفس مضمون کے ساتھ پورے قصیدے میں بمشکل دو ایک شعر ہوتے ہیں ۔ باقی سب بھرتی کے اور ادھر ادھر کی لایعنی اور فضول بکواس برخلاف اس کے قرآن پاک کے اس پر نظر ڈالو تو دیکھو گے کہ اس کا ایک ایک لفظ فصاحت و بلاغت سے دین و دنیا کے نفع سے ، خیر و برکت سے پر ہے ۔ پھر کلام کی ترتیب و تہذیب الفاظ کی بندش ، عبارت کی روانی ، معانی کی نورانیت ، مضمون کی پاکیزگی ، سونے پر سہاگہ ہے ۔ اس کی خبروں کی حلاوت ، اس کے بیان کردہ واقعات کی سلاست ، مردہ دلوں کی زندگی ہے ۔ اس کا اختصار کمال کا اعلیٰ نمونہ اور اس کی تفصیل معجزے کی جان ہے اس کا کسی چیز کا دہرانا قند مکرر کا مزہ دیتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے گویا سچے موتیوں کی بارش برس رہی ہے ۔ باربار پڑھو دل نہ اکتائے ، مزے لیتے جاؤ اور ہر وقت نیا مزہ پاؤ ۔ مضامین سمجھتے جاؤ اور ختم نہ ہوں ۔ یہ قرآن پاک کا ہی خاصہ ہے اس چاشنی کا ذائقہ ، اس مٹھاس کا مزہ کوئی اس سے پوچھے جنہیں عقل و حواس علم و فضل کا کچھ حصہ قدرت نے عطا فرمایا ۔ اس کی تنذیر دھمکاوا تعذیب اور پکڑ دھکڑ کا بیان مضبوط پہاڑوں کو ہلا دے ۔ انسانی دل کیا ہیں اس کے وعدے اور خوشخبریاں ، نعمتوں اور رحمتوں کا بیان دلوں کی پژمردہ کلی کو کھلا دینے والا ، شوق و تمنا کے دبے جذبات کو ابھار دینے والا جنتوں اور راحتوں کے پیارے پیارے مناظر کو آنکھوں کے سامنے لانے والا ہے ۔ دل کِھل جاتے ہیں کان لگ جاتے ہیں اور آنکھیں کھُل جاتی ہیں ۔ رغبت دیتے ہوئے وہ فرماتا ہے آیت «فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَاءً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ» ( 22 ۔ السجدہ : 17 ) کوئی کیا جانے کہ اس کے نیک اعمال کے بدلے اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کیا سامان چپکے چپکے تیا کیا جا رہا ہے ۔ فرماتا ہے : «وَفِیہَا مَا تَشْتَہِیہِ الْأَنفُسُ وَتَلَذٰ الْأَعْیُنُ» (43-الزخرف:71) الخ اس دائمی جنت میں ہر وہ چیز ہے جو دل کو بھائے اور آنکھوں میں اتر جائے ۔ ڈراتے اور دھمکاتے ہوئے فرمایا آیت «اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ یَّخْسِفَ بِکُمْ جَانِبَ الْبَرِّ» ( 17 ۔ الاسرآء : 68 ) فرمایا «ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَاءِ اَنْ یَّخْسِفَ بِکُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا ہِیَ تَمُوْرُ اَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَاءِ اَنْ یٰرْسِلَ عَلَیْکُمْ حَاصِبًا فَسَتَعْلَمُوْنَ کَیْفَ نَذِیْرِ» ( 67 ۔ الملک : 17-16 ) کیا تم اپنے دھنسائے جانے یا آسمان سے پتھر برسائے جانے سے نڈر ہو گئے ہو ؟ کیا آسمانوں والا اس پر قادر نہیں ؟ اسے محض دھمکی ہی نہ سمجھو بلکہ اس کی حقیقت عنقریب تم پر کھل جائے گی ۔ زجر و تو بیخ ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے ۔ آیت «فَکُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْبِہٖ» ( 29 ۔ العنکبوت : 40 ) ایک ایک کو ہم نے اس کی بدکرداریوں میں پکڑ لیا ۔ بطور وعظ و نصیحت بیان ہوتا ہے آیت «أَفَرَأَیْتَ إِن مَّتَّعْنَاہُمْ سِنِینَ ثُمَّ جَاءَہُم مَّا کَانُوا یُوعَدُونَ مَا أَغْنَیٰ عَنْہُم مَّا کَانُوا یُمَتَّعُونَ» ( 26 ۔ الشعرآء : 207-205 ) اگر ہم نے کچھ سال انہیں فائدہ نہیں دیا تو کیا ہوا ؟ آخر وعدے کی گھڑی آ پہنچی اور اس جاہ و جلال نے کوئی نفع نہ بخشا ۔ غرض کوئی کہاں تک بیان کرے جس مضمون کا ذکر کیا ۔ اسے کمال تک پہنچا کر چھوڑا اور طرح طرح کی فصاحت و بلاغت ، حلاوت و حکمت سے معمور کر دیا احکام کے حکم اور روک ٹوک کو دیکھئیے ہر حکم اچھائی بھلائی نفع اور پاکیزگی کا جامع ہے ۔ ہر ممانعت قباحت رذالت اور خباثت کی قاطع ہے ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہا وغیرہ اسلاف امت کا قول ہے کہ جب قرآن میں آیت «یا أَیٰہَا الَّذینَ آمَنُوا» آئے تو کان لگا دو یا تو کسی اچھائی کا حکم ہو گا یا کسی برائی سے منع کیا جائے گا خود پروردگار عالم فرماتا ہے آیت «یَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہٰیہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلٰ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَـبٰیِٕثَ وَیَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْہِمْ» (7-الأعراف:157) یعنی بھلائیوں کا حکم دیتا ہے برائیوں سے روکتا ہے پاکیزہ چیزیں حلال قرار دیتا ہے خبیث چیزیں حرام کرتا ہے وہ بوجھل بیڑیاں جو پاؤں میں تھیں وہ سخت طوق جو گلوں میں تھے اتار پھینکتا ہے قیامت کے بیان کی آیتیں ہیں کہ ہولناک مناظر جنت و دوزخ کا بیان رحمتوں اور زحمتوں کا پورا پورا وصف ۔ اولیاء اللہ کے لیے طرح طرح کی نعمتیں ۔ دشمنان اللہ کے لیے طرح طرح کے عذاب ۔ کہیں بشارت ہے کہیں ڈراوا ہے کہیں نیکیوں کی طرف رغبت ہے ۔ کہیں بدکاریوں سے ممانعت ہے ۔ کہیں دنیا کی طرف سے زہد کرنے کی ، کہیں آخرت کی طرف رغبت کرنے کی تعلیم ہے ۔ یہی وہ تمام آیتیں ہیں جو راہ راست دکھاتی ہیں اور بہتر رہنمائی کرتی ہیں اللہ کی پسندیدہ شریعت کی طرف جھکاتی ہیں اور دلوں کو جلا دیتی ہیں اور شیطانی دروازوں کو بند کر دیتی ہے اور برے اثرات کو زائل کرتی ہیں ۔ صحیح بخاری مسلم میں بروایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر نبی کو ایسے معجزے دئیے گئے کہ جنہیں دیکھ کر لوگ اس پر ایمان لائے اور میرا معجزہ اللہ کی وحی یعنی قرآن پاک ہے اس لیے مجھے امید ہے کہ میرے تابعدار بہ نسبت اور نبیوں کے بہت زیادہ ہوں گے ۔ (صحیح بخاری:4981:صحیح) اس لیے کہ اور انبیاء علیہم السلام کے معجزے ان کے ساتھ چلے گئے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معجزہ قیامت تک باقی رہے گا ۔ لوگ اسے دیکھتے جائیں گے اور اسلام میں داخل ہوتے جائیں گے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ میرا معجزہ وحی ہے جو مجھ کو دی گئی ہے کا مطلب یہ ہے کہ مجھ کو اس کے ساتھ مخصوص کیا گیا ہے اور قرآن کریم مجھی کو ملا ہے جو اپنے معارضے اور مقابلے میں تمام دنیا کو عاجز کر دینے والا ہے ۔ بخلاف دوسری آسمانی کتابوں کے وہ اکثر علماء کے نزدیک اس وصف سے خالی ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور دین اسلام کی حقانیت پر اس معجزے کے علاوہ بھی اس قدر دلائل ہیں جو گنے بھی نہیں جا سکتے ۔ للہ الحمد والمنتہ ۔ بعض متکلمین نے قرآن کریم کے اعجاز کو ایسے انداز سے بیان کیا ہے جو اہل سنت کے اور معتزلہ کے قول پر مشترک ہے وہ کہتے ہیں کہ یا تو یہ قرآن فی نفسہ معجزہ ہے جو انسان کے امکان میں ہی نہیں کہ اس جیسا بنا لا سکے انہیں اس کا معارضہ کرنے کی قدرت و طاقت ہی نہیں ۔ یا یہ کہ گو اس کا معارضہ ممکن ہے اور انسانی طاقت سے باہر نہیں لیکن باوجود اس کے انہیں معارضہ کا چیلنج دیا جاتا ہے اس لیے کہ وہ عداوت اور دشمنی میں بڑھے ہوئے ہیں دین حق کو مٹانے ، ہر وقت ہر طاقت کے خرچ کرنے اور ہر چیز کے برباد کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن تاہم قرآن کا معارضہ اور مقابلہ ان سے نہیں ہو سکتا ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن اللہ کی جانب سے ہے اگر قدرت و طاقت ہو بھی تو بھی وہ انہیں روک دیتا ہے اور وہ قرآن کی مثل پیش کرنے سے عاجز ہو جاتے ہیں ۔ گو یہ پچھلی وجہ اتنی پسندیدہ نہیں تاہم اگر اسے بھی مان لیا جائے تو اس سے بھی قرآن پاک کا معجزہ ہونا ثابت ہوئے جو بطریق تنزل حمایت حق اور مناظرے کی خاطر صلاحیت رکھتا ہے ۔ امام رازی رحمہ اللہ نے بھی چھوٹی چھوٹی سورتوں کے سوال کے جواب میں یہی طریقہ اختیار کیا ہے ۔ جہنم کا ایندھن وقود کے معنی ایندھن کے ہیں جس سے آگ جلائی جائے ۔ جیسے چپٹیاں لکڑیاں وغیرہ قرآن کریم میں ایک جگہ ہے آیت «وَأَمَّا الْقَاسِطُونَ فَکَانُوا لِجَہَنَّمَ حَطَبًا» ( 72 ۔ الجن : 15 ) ظالم لوگ جہنم کی لکڑیاں ہیں اور جگہ فرمایا تم اور تمہارے معبود جو اللہ کے سوا ہیں جہنم کی لکڑیاں ہیں تم سب اس میں وارد ہو گے اگر وہ سچے معبود ہوتے تو وہاں وارد نہ ہوتے دراصل یہ سب کے سب اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔ اور حجارہ کہتے ہیں پتھر کو یہاں مراد گندھک کے سخت سیاہ اور بڑے بڑے اور بدبودار پتھر ہیں جن کی آگ بہت تیز ہوتی ہے اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے ۔ (آمین) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ان پتھروں کو زمین و آسمان کی پیدائش کے ساتھ ہی آسمان اول پر پیدا کیا گیا ہے ۔ ( ابن جریر ابن ابی حاتم مستدرک حاکم ) سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور چند اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے سدی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ جہنم میں یہ سیاہ گندھک کے پتھر بھی ہیں جن کی سخت آگ سے کافروں کو عذاب کیا جائے گا ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ان پتھروں کی بدبو مردار کی بو سے بھی زیادہ ہے محمد بن علی اور ابن جریج رحمہ اللہ بھی کہتے ہیں کہ مراد گندھک کے بڑے بڑے اور سخت پتھر ہیں ۔ بعض نے کہا ہے مراد وہ پتھر جن کی مورتیاں بنائی جاتی ہیں اور پھر ان کی پرستش کی جاتی تھی جیسے اور جگہ ہے آیت «اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ اَنْتُمْ لَہَا وٰرِدُوْنَ» ( 21 ۔ الانبیآء : 98 ) تم اور تمہارے وہ معبود جو اللہ کے سوا ہیں جہنم کی لکڑیاں ہیں ، قرطبی اور رازی رحمہ اللہ نے اسی قول کو ترجیح دی ہے اور کہا ہے کہ گندھک کے پتھر جو کسی شکل میں بھی اللہ کے سوا پوجے جاتے ہوں لیکن یہ وجہ کوئی قوی وجہ نہیں اس لیے کہ جب آگ گندھک کے پتھروں سے سلگائی جائے تو ظاہر ہے کہ اس کی تیزی اور حرارت معمولی آگ سے بہت زیادہ ہو گی اس کا بھڑکنا جلنا سوزش اور شعلے بھی بہت زیادہ ہوں گے علاوہ اس کے پھر سلف سے بھی اس کی تفسیر یہی مروی ہے اسی طرح ان پتھروں میں آگ کا لگنا بھی ظاہر ہے ۔ اور آیت کا مقصود آگ کی اور اس کی سوزش کا بیان کرنا ہے اور اس کے بیان کے لیے بھی یہاں پتھر سے مراد گندھک کے پتھر لینا زیادہ مناسب ہے تاکہ وہ آگ تیز ہو اور اس سے بھی عذاب میں سختی ہو قرآن کریم میں ہے آیت «کُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰہُمْ سَعِیْرًا» ( 17 ۔ الاسرآء : 97 ) جہاں شعلے ہلکے ہوئے کہ ہم نے اور بھڑکا دیا ۔ ایک حدیث میں ہے ہر موذی آگ میں ہے لیکن یہ حدیث محفوظ اور معروف نہیں ۔ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کے دو معنی ہیں ایک یہ کہ ہر وہ شخص جو دوسروں کو ایذاء دے جہنمی ہے دوسرے یہ کہ ہر ایذاء دہندہ چیز جہنم کی آگ میں موجود ہو گی جو جہنمیوں کو عذاب دے گی ۔ اعدت یعنی تیار کی گئی ہے مراد بظاہر یہی معلوم ہوتی ہے کہ وہ آگ کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مراد پتھر ہوں یعنی وہ پتھر جو کافروں کے لیے تیار کئے گئے ہیں ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کا یہی قول ہے اور فی الحقیقت دونوں معنی میں کوئی اختلاف نہیں اس لیے کہ پتھروں کا تیار کیا جانا آگ کے جلانے کے لیے ہے ۔ لہٰذا آگ کی تیاری کے لیے پتھروں کا تیار کیا جانا ضروری ہے ۔ پس دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ہر وہ شخص جو کفر پر ہو اس کے لیے وہ آگ تیار ہے ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:383/1) اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ جہنم اب موجود اور پیدا شدہ ہے کیونکہ ”اعدت“ کا لفظ ہی اس کی دلیل میں آیا ہے بہت سی حدیثیں بھی ہیں ۔ ایک مطول حدیث میں ہے جنت اور دوزخ میں جھگڑا ہوا ، (صحیح بخاری:4850:صحیح) دوسری حدیث میں ہے جہنم نے اللہ تعالیٰ سے دو سانس لینے کی اجازت چاہی اور اسے سردی میں ایک سانس لینے اور گرمی میں دوسرا سانس لینے کی اجازت دے دی گئی ۔ (صحیح بخاری:537) تیسری حدیث میں ہے صحابہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں ہم نے ایک مرتبہ بڑے زور کی ایک آواز سنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یہ کس چیز کی آواز ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ستر سال پہلے ایک پتھر جہنم میں پھینکا گیا تھا آج وہ تہہ کو پہنچا ۔ (صحیح مسلم:2844) چوتھی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن کی نماز پڑھتے ہوئے جہنم کو دیکھا ۔ (صحیح بخاری:1052) پانچویں حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں جہنم کو اس میں عذابوں کے سلسلے کو ملاحظہ فرمایا اسی طرح اور بہت سی صحیح متواتر حدیثیں مروی ہیں معتزلہ اپنی جہالت کی وجہ سے انہیں نہیں مانتے قاضی اندلس منذر بن سعید بلوطی نے بھی ان سے اتفاق کیا ہے ۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ یہاں اور سورۃ یونس میں جو کہا گیا ہے کہ ایک ہی سورت کے مانند لاؤ اس میں ہر چھوٹی بڑی آیت شامل ہے اس لیے عربیت کے قاعدے کے مطابق جو اسم نکرہ ہو اور شرط کے طور پر لایا گیا ہو وہ عمومیت کا فائدہ دیتا ہے جیسے کہ نکرہ نفی کی تحت میں استغراق کا فائدہ دیتا ہے پس لمبی سورتوں اور چھوٹی سورتوں سب میں اعجاز ہے اور اس بات پر سلف و خلف کا اتفاق ہے ۔ امام رازی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اگر کوئی کہے کہ سورت کا لفظ سورۃ الکوثر اور سورۃ العصر اور سورۃ «قُلْ یَا أَیٰہَا الْکَافِرُونَ» جیسی چھوٹی سورتوں پر بھی مشتمل ہے اور یہ بھی یقین ہو کہ اس جیسی یا اس کے قریب قریب کسی سورت کا بنا لینا ممکن ہے تو اسے انسانی طاقت سے خارج کہنا نری ہٹ دھرمی اور بے جا طرف داری ہے تو ہم جواب دیں گے کہ ہم نے اس کے معجزہ نما ہونے کے دو طریقے بیان کر کے دوسرے طریقہ کو اسی لیے پسند کیا ہے ۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر یہ چھوٹی سورتیں بھی فصاحت و بلاغت میں اسی پایہ کی ہیں کہ وہ معجزہ کہی جا سکیں اور انکار تعارض ممکن نہ ہو تو مقصود حاصل ہو گیا اور اگر یہ سورتیں ایسی نہیں تو بھی ہمارا مقصود حاصل ہے اس لیے کہ ان جیسی سورتوں کو بنانے کی انسانی قدرت ہونے پر بھی سخت دشمنی اور زبردست کوششوں کے باوجود ناکام رہنا ہے ۔ اس بات کی صاف دلیل ہے کہ یہ قرآن مع اپنی چھوٹی چھوٹی سورتوں کے سراسر معجزہ ہے یہ تو رازی رحمہ اللہ کا کہنا ہے ۔ لیکن صحیح قول یہ ہے کہ قرآن پاک کی ہر بڑی چھوٹی سورت فی الواقع معجزہ ہے اور انسان اس کی مانند بنانے سے محض عاجز اور بالکل بے بس ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر لوگ غورو تدبر سے عقل و ہوش سے سورۃ والعصر کو سمجھ لیں تو انتہائی کافی ہے ۔ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ جب وفد میں شامل مسیلمہ کذاب کے پاس گئے ( تب یہ خود بھی مسلمان نہیں ہوئے تھے ) تو مسیلمہ نے ان سے پوچھا کہ تم مکہ سے آ رہے ہو بتاؤ تو آج کل کوئی تازہ وحی بھی نازل ہوئی ہے ؟ انہوں نے کہا ابھی ابھی ایک مختصر سی سورت نازل ہوئی ہے جو بے حد فصیح و بلیغ اور جامع اور مانع ہے ۔ پھر سورۃ والعصر پڑھ کر سنائی تو مسلیمہ نے کچھ دیر سوچ کر اس کے مقابلے میں کہا ۔ مجھ پر بھی ایک ایسی ہی سورت نازل ہوئی ہے انہوں نے کہا ہاں تم بھی سناؤ تو اس نے کہا «یاوبریا وبرانما انت اذنان وصدر وسائک حقر فقر» یعنی اے جنگلی چوہے اے جنگلی چوہے تیرا وجود سوائے دو کانوں اور سینے کے اور کچھ بھی نہیں باقی تو سراسر بالکل ناچیز ہے پھر فخریہ کہنے لگا کہو اے عمرو کیسی کہی ؟ انہوں نے کہا مجھ سے کیا پوچھتے ہو تو خود جانتا ہے کہ یہ سراسر کذب و بہتان ہے بھلا کہاں یہ فضول کلام اور کہاں حکمتوں سے بھرپور وہ کلام ؟