أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا ۖ فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ
کیا یہ لوگ ملکوں میں چلے پھرے نہیں کہ عبرت حاصل کرتے؟ ان کے پاس دل ہوتے اور سمجھتے بوجھتے، کان ہوتے اور سنتے اور پاتے، حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی اندھے پن میں پڑتا ہے تو آنکھیں اندھی ہوجایا کرتیں (جو سروں میں ہیں) دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں کے اندر پوشیدہ ہیں۔
1 پس یہاں بھی یہی فرمان ہے کہ ’ اگلوں کے واقعات سامنے رکھ کر دلوں کو سمجھدار بناؤ ان کی ہلاکت کے سچے افسانے سن کر عبرت حاصل کرو ۔ سن لو آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتیں بلکہ سب سے برا اندھا پن دل کا ہے گو آنکھیں صحیح سالم موجود ہوں ۔ دل کے اندھے پن کی وجہ سے نہ تو عبرت حاصل ہوتی ہے نہ خیر و شر کی تمیز ہوتی ہے ‘ ۔ ابو محمد بن جیارہ اندلسی نے جن کا انتقال ٥١٧ھ میں ہوا ہے اس مضمون کو اپنے چند اشعار میں خوب نبھایا ہے وہ فرماتے ہیں ” اے وہ شخص جو گناہوں میں لذت پا رہا ہے کیا اپنے بڑھاپے اور نفس کی برائی سے بھی تو بیخبر ہے ؟ اگر نصیحت اثر نہیں کرتی تو کیا دیکھنے سننے سے بھی عبرت حاصل نہیں ہوتی ؟ سن لے آنکھیں اور کان اپنا کام نہ کریں تو اتنا برا نہیں جتنا ، برا یہ ہے کہ واقعات سے سبق نہ حاصل کیا جائے ۔ یاد رکھ نہ تو دنیا باقی رہے گی نہ آسمان نہ سورج چاند ۔ گو جی نہ چاہے مگر دنیا سے تم کو ایک روز بادل ناخواستہ کوچ کرناہی پڑے گا ۔ کیا امیر ہو کیا غریب کیا شہری ہو یا دیہاتی “ ۔