لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ ۗ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ
یاد رکھو ! اللہ تک ان قربانیوں کا نہ تو گوشت پہنچتا ہے نہ خون، اس کے حضور جو کچھ پہنچ سکتا ہے وہ تو صرف تمہارا تقوی ہے (یعنی تمہارے دل کی نیکی ہے) ان جانوروں کو اس طرح تمہارے لیے مسخر کردیا کہ اللہ کی رہنمائی پر اس کے شکر گزار رہو اور اس کے نام کی بڑائی کا آواز بلند کرو، اور نیک کرداروں کے لیے (قبولیت حق کی) خوشخبری ہے۔
قربانی پر اللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان کرو ارشاد ہوتا ہے کہ ’ قربانیوں کے وقت اللہ کا نام بڑائی سے لیا جائے ‘ ۔ اسی لیے قربانیاں مقرر ہوئی ہیں کہ خالق رازق اسے مانا جائے نہ کہ قربانیوں کے گوشت و خون سے اللہ کو کوئی نفع ہوتا ہو ۔ اللہ تعالیٰ ساری مخلوق سے غنی اور کل بندوں سے بے نیاز ہے ۔ جاہلیت کی بیوقوفیوں میں ایک یہ بھی تھی کہ قربانی کے جانور کا گوشت اپنے بتوں کے سامنے رکھ دیتے تھے اور ان پر خون کا چھینٹا دیتے تھے ۔ یہ بھی دستور تھا کہ بیت اللہ شریف پر قربانی کے خون چھڑکتے ، مسلمان ہو کر صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایسا کرنے کے بارے میں سوال کیا جس پر یہ آیت اتری کہ ’ اللہ تو تقویٰ کو دیکھتا ہے اسی کو قبول فرماتا ہے اور اسی پر بدلہ عنایت فرماتا ہے ‘ ۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا نہ اس کی نظریں تمہارے مال پر ہیں بلکہ اس کی نگاہیں تمہارے دلوں پر اور تمہارے اعمال پر ہیں } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2564) اور حدیث میں ہے کہ { خیرات وصدقہ سائل کے ہاتھ میں پڑے اس سے پہلے اللہ کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے ۔ قربانی کے جانور کے خون کا قطرہ زمین پر ٹپکے اس سے پہلے اللہ کے ہاں پہنچ جاتا ہے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1493،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اس کا مطلب یہی ہے کہ خون کا قطرہ الگ ہوتے ہی قربانی مقبول ہو جاتی ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ عامر شعبی رحمہ اللہ سے قربانی کی کھالوں کی نسبت پوچھا گیا تو فرمایا ” اللہ کو گوشت و خون نہیں پہنچتا اگر چاہو بیچ دو ، اگر چاہو خود رکھ لو ، اگر چاہو راہ للہ دے دو ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو تمہارے قبضے میں دیا ہے ۔ کہ تم اللہ کے دین اور اس کی شریعت کی راہ پا کر اس کی مرضی کے کام کرو اور نا مرضی کے کاموں سے رک جاؤ ۔ اور اس کی عظمت وکبریائی بیان کرو ۔ جو لوگ نیک کار ہیں ، حدود اللہ کے پابند ہیں ، شریعت کے عامل ہیں ، رسولوں کی صداقت تسلیم کرتے ہیں وہ مستحق مبارکباد اور لائق خوشخبری ہیں “ ۔ مسئلہ امام ابوحنیفہ ، مالک ثوری رحمہ اللہ علیہم کا قول ہے کہ ” جس کے پاس نصاب زکوٰۃ جتنا مال ہو اس پر قربانی واجب ہے “ ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ شرط بھی ہے کہ وہ اپنے گھر میں مقیم ہو ۔ چنانچہ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ { جسے وسعت ہو اور قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3123،قال الشیخ الألبانی:حسن) اس روایت میں غرابت ہے اور امام احمد رحمتہ اللہ علیہ اسے منکر بتاتے ہیں ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برابر دس سال قربانی کرتے رہے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1507،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) امام شافعی رحمہ اللہ اور حضرت مام احمد رحمہ اللہ کا مذہب ہے کہ قربانی واجب و فرض نہیں بلکہ مستحب ہے ۔ کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ { مال و زکوٰۃ کے سوا اور کوئی فرضیت نہیں } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:1789،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہ بھی روایت پہلے بیان ہو چکی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام امت کی طرف سے قربانی کی } پس وجوب ساقط ہو گیا ۔ ابو شریحہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم کے پڑوس میں رہتا تھا ۔ یہ دونوں بزرگ قربانی نہیں کرتے تھے اس ڈر سے کہ لوگ ان کی اقتداء کریں گے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں قربانی سنت کفایہ ہے ، جب کہ محلے میں سے یا گلی میں سے یا گھر میں سے کسی ایک نے کر لی باقی سب نے ایسا نہ کیا ۔ اس لیے کہ مقصود صرف شعار کا ظاہر کرنا ہے ۔ ترمذی وغیرہ میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان عرفات میں فرمایا : { ہر گھر والوں پر ہر سال قربانی ہے اور «عَتِیرَۃ» ہے جانتے ہو «عَتِیرَۃ» کیا ہے ؟ وہی جسے تم «رَّجَبِیَّۃ» کہتے ہو } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2788،قال الشیخ الألبانی:حسن) اس کی سند میں کلام کیا گیا ہے ۔ سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { صحابہ رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اپنے پورے گھر کی طرف سے ایک بکری راہ للہ ذبح کر دیا کرتے تھے اور خود بھی کھاتے ، اوروں کو بھی کھلاتے ۔ پھر لوگوں نے اس میں وہ کر لیا جو تم دیکھ رہے ہو } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1505،قال الشیخ الألبانی:صحیح) { سیدنا عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ اپنی اور اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کیا کرتے تھے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7210) اب قربانی کے جانور کی عمر کا بیان ملاحظہ ہو ۔ صحیح مسلم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { نہ ذبح کرو مگر «مُسِنَّۃ» بجز اس صورت کے کہ وہ تم پر بھاری پڑ جائے تو پھر بھیڑ کا بچہ بھی چھ ماہ کا ذبح کر سکتے ہو } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2788،قال الشیخ الألبانی:حسن) زہری رحمہ اللہ تو کہتے ہیں کہ «الْجَذَع» یعنی چھ ماہ کا کوئی جانور قربانی میں کام ہی نہیں آسکتا اور اس کے بالمقابل اوزاعی رحمہ اللہ کا مذہب ہے کہ ہر جانور کا جزعہ کافی ہے ۔ لیکن یہ دونوں قول افراط والے ہیں ۔ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ اونٹ گائے بکری تو وہ جائز ہے جو ثنی ہو ۔ اور بھیڑ کا چھ ماہ کا بھی جائز ہے ۔ اونٹ تو ثنی ہوتا ہے جب پانچ سال پورے کر کے چھٹے میں لگ جائے ۔ اور گائے جب دو سال پورے کر کے تیسرے میں لگ جائے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ تین گزار کر چوتھے میں لگ گیا ہو ۔ اور بکری کا ثنی وہ ہے جو دو سال گزار چکا ہو اور جذعہ کہتے ہیں اسے جو سال بھر کا ہو گیا ہو اور کہا گیا ہے جو دس ماہ کا ہو ۔ ایک قول ہے جو آٹھ ماہ کا ہو ایک قول ہے جو چھ ماہ کا ہو اس سے کم مدت کا کوئی قول نہیں ۔ اس سے کم عمر والے کو حمل کہتے ہیں ۔ جب تک کہ اس کی پیٹھ پر بال کھڑے ہوں اور بال لیٹ جائیں اور دونوں جانب جھک جائیں تو اسے جذع کہا جاتا ہے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔