يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ ۗ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ
مسلمانوں ! ہم نے مال و متاع دنیا میں سے جو کچھ تمہیں دے رکھا ہے، اسے ( صرف اپنے نفس کے آرام و راحت پر نہیں بلکہ راہ حق میں بھی) خرچ کرو اور ہاتھ نہ روکو۔ قبل اس کے کہ (زندگی کی عارضی مہلت ختم ہوجائے، اور آنے والا دن سامنے آئے جائے۔ اس دن نہ تو (دنیا کی طرح) خرید و فروخت ہوسکے گی (کہ قیمت دے کر نجات خرید لو)، نہ کسی کی یاری کام آئے گی (کہ اس کے سہارے گناہ بخشوا لو) نہ ایسا ہی ہوسکے گا کہ کسی کی سعی و سفارش سے کام نکال لیا جائے، (اس دن صرف عمل ہی نجات دلا سکے گا) اور یاد رکھو، جو لوگ اس حقیقت سے) منکر ہیں، تو یقینا یہی لوگ ہیں جو اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کرنے والے ہیں۔
آج کے صدقات قیامت کے دن شریکِ غم ہوں گے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم کرتا ہے کہ وہ بھلائی کی راہ میں اپنا مال خرچ کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کے پاس ان کا ثواب جمع رہے ، اور پھر فرماتا ہے کہ اپنی زندگی میں ہی خیرات و صدقات کر لو ، قیامت کے دن نہ تو خرید و فروخت ہو گی نہ زمین بھر کر سونا دینے سے جان چھوٹ سکتی ہے ، نہ کسی کا نسب اور دوستی و محبت کچھ کام آ سکتی ہے ، جیسے اور جگہ ہے «فَإِذَا نُفِخَ فِی الصٰورِ فَلاَ أَنسَـبَ بَیْنَہُمْ یَوْمَئِذٍ وَلاَ یَتَسَآءَلُونَ» ( 23-المؤمنون : 101 ) یعنی ’ جب صور پھونکا جائے گا اس دن نہ تو نسب رہے گا نہ کوئی کسی کا پرسان حال ہو گا ، اور اس دن سفارشیوں کی سفارش بھی کچھ نفع نہ دیگی‘ ۔ پھر فرمایا کافر ہی ظالم ہیں یعنی پورے اور پکے ظالم ہیں وہ جو کفر کی حالت ہی میں اللہ سے ملیں ، عطا بن دینار رحمہ اللہ کہتے ہیں شکر ہے اللہ نے کافروں کو ظالم فرمایا لیکن ظالموں کو کافر نہیں فرمایا ، (تفسیرابن ابی حاتم 966/3) ۔