سورة طه - آیت 74

إِنَّهُ مَن يَأْتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَىٰ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

کچھ شک نہیں جو شخص اپنے پروردگار کے حضور مجرم ہو کر حاضر ہوگا تو یقینا اس کے لیے دوزخ ہوگی نہ تو اس میں مرے گا، نہ زندہ رہے گا (دونوں حالتوں کے درمیان سسکتا رہے گا)

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

ایمان یافتہ جادوگروں پر فرعون کا عتاب بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ جادوگروں نے ایمان قبول فرما کر فرعون کو جو نصیحتیں کیں ، انہیں میں یہ آیتیں بھی ہیں ۔ اسے اللہ کے عذابوں سے ڈرا رہے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کا لالچ دلا رہے ہیں کہ گنہگاروں کا ٹھکانا جہنم ہے جہاں موت تو کبھی آنے ہی کی نہیں لیکن زندگی بھی بڑی ہی مشقت والی موت سے بدتر ہو گی ۔ جیسے فرمان ہے «لَا یُقْضٰی عَلَیْہِمْ فَیَمُوْتُوْا وَلَا یُخَـفَّفُ عَنْہُمْ مِّنْ عَذَابِہَا ۭ کَذٰلِکَ نَجْزِیْ کُلَّ کَفُوْرٍ » ۱؎ (35-فاطر:36) ’ یعنی نہ تو موت ہی آئے گی نہ عذاب ہلکے ہوں گے ، کافروں کو ہم اسی طرح سزا دیتے ہیں ۔ ‘ اور آیتوں میں ہے «وَیَتَجَنَّبُہَا الْأَشْقَی * الَّذِی یَصْلَی النَّارَ الْکُبْرَیٰ * ثُمَّ لَا یَمُوتُ فِیہَا وَلَا یَحْیَیٰ » ۱؎ (87-الأعلی:11-13) ’ یعنی اللہ کی نصیحتوں سے بے فیض وہی رہے گا جو ازلی بدبخت ہو جو آخرکار بڑی سخت آگ میں گرے گا جہاں نہ تو موت آئے نہ چین کی زندگی نصیب ہو ۔ ‘ اور آیت میں ہے کہ«وَنَادَوْا یَا مَالِکُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبٰکَ ۖ قَالَ إِنَّکُم مَّاکِثُونَ » ۱؎ (43-الزخرف:77) ’ جہنم میں جھلستے ہوئے کہیں گے کہ اے داروغہ دوزخ ! تم دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں موت ہی دیدے ‘ لیکن وہ جواب دے گا کہ نہ تم مرنے والے ہو نہ نکلنے والے ۔