الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَن يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
طلاق (جس کے بعد رجوع کیا جاسکتا ہے) دو مرتبہ (کرکے دو مہینوں میں دو طلاقیں ہیں)۔ پھر اس کے بعد شوہر کے لیے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں۔ یا تو اچھے طریقے پر روک لینا (یعنی رجوع کرلینا) یا پھر حسن سلوک کے ساتھ الگ کردینا۔ (یعنی تیسرے مہینے تیسری طلاق دے کر جدا ہوجا) اور تمہارے لیے جائز نہیں کہ جو کچھ اپنی بیویوں کو دے چکے ہو (طلاق دیتے ہوئے) اس میں سے کچھ واپس لے لو۔ ہاں اگر شوہر اور بیوی کو اندیشہ پیدا ہوجائے کہ اللہ کے ٹھہرائے ہوئے واجبات و حقوق ادا نہ ہوسکیں گے (تو باہمی رضامندی سے ایسا ہوسکتا ہے) تو اگر تم دیکھو ایسی صورت پیدا ہوگئی ہے کہ واقعی) اندیشہ ہے خدا کے ٹھہرائے ہوئے واجبات و حقوق ادا نہ ہوسکیں گے، تو پھر شوہر اور بیوی کے لیے اس میں کچھ گناہ نہ ہوگا، اگر بیوی (اپنا پیچھا چھڑانے کے لیے) بطور معاوضے کے (اپنے حق میں سے) کچھ دے دے (اور شوہر اسے لے کر علیحدگی پر راضی ہوجائے) یاد رکھو، یہ اللہ کی ٹھرائی ہوئی ھد بندیاں ہیں، پس ان سے قدم باہر نہ نکالوں (اور اپنی اپنی حدوں کے اندر رہو) جو کوئی اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حد بندیوں سے نکل جائے گا، تو ایسے ہی لوگ ہیں جو ظلم کرنے والے ہیں
رسم طلاق میں آئینی اصلاحات اور خلع اسلام سے پہلے یہ دستور تھا کہ خاوند جتنی چاہے طلاقیں دیتا چلا جائے اور عدت میں رجوع کرتا جائے اس سے عورتوں کی جان غضب میں تھی کہ طلاق دی ، عدت گزرنے کے قریب آئی رجوع کر لیا ، پھر طلاق دے دی اس طرح عورتوں کو تنگ کرتے رہتے تھے ، پس اسلام نے حد بندی کر دی کہ اس طرح کی طلاقیں صرف دو ہی دے سکتے ہیں ۔ تیسری طلاق کے بعد لوٹا لینے کا کوئی حق نہ رہے گا ، سنن ابوداؤد میں باب ہے کہ تین طلاقوں کے بعد مراجعت منسوخ ہے ، پھر یہ روایت لائے ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما یہی فرماتے ہیں ،(سنن ابوداود:2195،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ نہ تو میں تجھے بساؤں گا نہ چھوڑوں گا ، اس نے کہا یہ کس طرح ؟ طلاق دے دوں گا اور جہاں عدت ختم ہونے کا وقت آیا تو رجوع کر لوں گا ، پھر طلاق دے دوں گا ، پھر عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کر لوں گا اور یونہی کرتا چلا جاؤں گا ۔ وہ عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اپنا یہ دُکھ رونے لگی اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ۔(مؤطا:588/2:مرسل و ضعیف) ایک اور روایت میں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد لوگوں نے نئے سرے سے طلاقوں کا خیال رکھنا شروع کیا اور وہ سنبھل گئے ، (سنن ترمذی:1192 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) اور تیسری طلاق کے بعد اس خاوند کو لوٹا لینے کا کوئی حق حاصل نہ رہا اور فرما دیا گیا کہ دو طلاقوں تک تو تمہیں اختیار ہے کہ اصلاح کی نیت سے اپنی بیوی کو لوٹا لو اگر وہ عدت کے اندر ہے اور یہ بھی اختیار ہے کہ نہ لوٹاؤ اور عدت گزر جانے دو تاکہ وہ دوسرے سے نکاح کرنے کے قابل ہو جائے اور اگر تیسری طلاق دینا چاہتے ہو تو بھی احسان و سلوک کے ساتھ ورنہ اس کا کوئی حق نہ مارو ، اس پر کوئی ظلم نہ کرو ، اسے ضرر و نقصان نہ پہنچاؤ ، (تفسیر ابن جریر الطبری:543/4) ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ دو طلاقیں تو اس آیت میں بیان ہو چکی ہیں تیسری کا ذِکر کہاں ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آیت «الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ» ( البقرہ : 229 ) میں ، جب تیسری طلاق کا ارادہ کرے تو عورت کو تنگ کرنا اس پر سختی کرنا تاکہ وہ اپنا حق چھوڑ کر طلاق پر آمادگی ظاہر کرے ، یہ مردوں پر حرام ہے ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت «وَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ لِتَذْہَبُوْا بِبَعْضِ مَآ اٰتَیْتُمُوْھُنَّ اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مٰبَیِّنَۃٍ» الخ (4-النساء:19) ، یعنی عورتوں کو تنگ نہ کرو تاکہ انہیں دئیے ہوئے میں سے کچھ لے لو ، ہاں یہ اور بات ہے کہ عورت اپنی خوشی سے کچھ دے کر طلاق طلب کرے جیسے فرمایا آیت «فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْءٍ مِّنْہُ نَفْسًا فَکُلُوْہُ ہَنِیْــــــًٔـا مَّرِیْـــــــًٔـا» ( 4 ۔ النسآء : 4 ) یعنی اگر عورتیں اپنی راضی خوشی سے کچھ چھوڑ دیں تو بیشک وہ تمہارے لیے حلال طیب ہے اور جب میاں بیوی میں نااتفاقی بڑھ جائے عورت اس سے خوش نہ ہو اور اس کے حق کو نہ بجا لاتی ہو ایسی صورت میں وہ کچھ لے دے کر اپنے خاوند سے طلاق حاصل کر لے تو اسے دینے میں اور اسے لینے میں کوئی گناہ نہیں ۔ یہ بھی یاد رہے کہ اگر عورت بلاوجہ اپنے خاوند سے خلع طلب کرتی ہے تو وہ سخت گنہگار ہے چنانچہ ترمذی وغیرہ میں حدیث ہے کہ جو عورت اپنے خاوند سے بےسبب طلاق طلب کرے اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے ، (سنن ترمذی:1187 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور روایت میں ہے کہ حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی دوری سے آتی ہے ، اور روایت میں ہے کہ ایسی عورتیں منافق ہیں ، (سنن ترمذی:1186 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) آئمہ سلف و خلف کی ایک بڑی جماعت کا فرمان ہے کہ خلع صرف اسی صورت میں ہے کہ نافرمانی اور سرکشی عورت کی طرف سے ہو ، اس وقت مرد فدیہ لے کر اس عورت کو الگ کر سکتا ہے جیسے قرآن پاک کی اس آیت میں ہے اس کے سوا کی صورت میں یہ سب جائز نہیں ، بلکہ امام مالک رحمہ اللہ تو فرماتے ہیں کہ اگر عورت کو تکلیف پہنچا کر اس کے حق میں کمی کر کے اگر اسے مجبور کیا گیا اور اس سے کچھ مال واپس لیا گیا تو اس کا لوٹا دینا واجب ہے ، امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب حالت اختلاف میں جائز ہے تو حالت اتفاق میں بطور اولیٰ جائز ٹھہرے گا ، بکر بن عبداللہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سرے سے خلع منسوخ ہے کیونکہ قرآن میں ہے آیت «وَّاٰتَیْتُمْ اِحْدٰیھُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْہُ شَـیْـــًٔـا» ( 4 ۔ النسآء : 20 ) یعنی اگر تم نے اپنی بیویوں کو ایک خزانہ بھی دے رکھا ہو ، تو بھی اس میں سے کچھ بھی نہ لو ، لیکن یہ قول ضعیف ہے اور مردود ہے ۔ اب آیت کا شان نزول سنیے! موطا امام مالک میں ہے کہ حبیبہ بنت سہل انصاریہ رضی اللہ عنہا سیدنا ثابت بن قیس شماس رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن صبح کی نماز کیلئے اندھیرے اندھیرے نکلے تو دیکھا کہ دروازے پر حبیبہ رضی اللہ عنہا کھڑی ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کون ہے ؟ کہا میں حبیبہ بنت سہل ہوں ۔ فرمایا کیا بات ہے ؟ کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے گھر میں نہیں رہ سکتی یا وہ نہیں یا میں نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سن کر خاموش رہے ۔ جب ثابت رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری بیوی صاحبہ کچھ کہہ رہی ہیں ۔ حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے خاوند مجھے جو دیا ہے وہ سب میرے پاس ہے اور میں اسے واپس کرنے پر آمادہ ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت کو فرمایا سب لے لو ، چنانچہ انہوں نے لے لیا اور حبیبہ رضی اللہ عنہا (سنن ابوداود:2227 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) آزاد ہو گئیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ نے انہیں مارا تھا اور اس مار سے کوئی ہڈی ٹوٹ گئی تھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں یہ فرمایا اس وقت انہوں نے دریافت کیا کہ کیا میں یہ مال لے سکتا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ، کہا میں نے اسے دو باغ دئیے ہیں ، یہ سب واپس دلوا دیجئیے ۔ وہ مہر کے دونوں باغ واپس کئے گئے اور جدائی ہو گئی ۔ (سنن ابوداود:2228 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ایک اور روایت میں ہے کہ حبیبہ رضی اللہ عنہا نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میں اس کے اخلاق اور دین میں عیب گیری نہیں کرتی لیکن میں اسلام میں کفر کو ناپسند کرتی ہوں چنانچہ مال لے کر سیدنا ثابت رضی اللہ عنہما نے طلاق دے دی ۔ (صحیح بخاری:5272) بعض روایات میں ان کا نام جمیلہ بھی آیا ہے ۔ (صحیح بخاری:5277) بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ مجھے اب غیظ و غضب کے برداشت کی طاقت نہیں رہی ۔ (سنن ابن ماجہ:2056 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو دِیا ہے لے لو ، زیادہ نہ لینا ۔ (سنن ابن ماجہ:2056 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ایک روایت میں ہے کہ حبیبہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تھا وہ صورت کے اعتبار سے بھی کچھ حسین نہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:4814:صحیح) ایک روایت میں ہے کہ یہ سیدنا عبداللہ بن ابی رضی اللہ عنہما کی بہن تھیں اور سب سے پہلا خلع تھا جو اسلام میں ہوا ۔ ایک وجہ یہ بھی بیان کی تھی کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم میں نے ایک مرتبہ خیمے کے پردہ کو جو اٹھایا تو دیکھا کہ میرے خاوند چند آدمیوں کے ساتھ آ رہے ہیں ، ان تمام میں یہ سیاہ فام چھوٹے قد والے اور بدصورت تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر کہ اس کا باغ واپس کرو ، حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں تو میں کچھ اور بھی دینے کو تیار ہوں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:4811:حسن) اور روایت میں ہے کہ حبیبہ رضی اللہ عنہا نے یہ بھی کہا تھا کہ یا رسول اللہ ! اگر اللہ تعالٰی کا خوف نہ ہوتا تو میں اس کے منہ پر تھوک دیا کرتی ، (سنن ابن ماجہ:2057 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) جمہور کا مذہب تو یہ ہے کہ خلع عورت اپنے سے دئیے ہوئے سے زیادہ لے تو بھی جائز ہے کیونکہ قرآن نے آیت «فَلَاجُنَاحَ عَلَیْھِمَا فِـیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ» ( 2 ۔ البقرہ : 229 ) میں فرمایا ہے ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کے پاس ایک عورت اپنے خاوند سے بگڑی ہوئی آئی ، آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا اسے گندگی والے گھر میں قید کر دو پھر قید خانہ سے اسے بلوایا اور کہا کیا حال ہے ؟ اس نے کہا آرام کی راتیں مجھ پر میری زندگی میں یہی گزری ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہما نے اس کے خاوند سے فرمایا اس سے خلع کر لے ۔ اگرچہ گوشوارہ کے بدلے ہی ہو ، ایک روایت میں ہے اسے تین دن وہاں قید رکھا تھا ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا اگر یہ اپنی چٹیا کی دھجی بھی دے تو لے لے اور اسے الگ کر دے ۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس کے سوا سب کچھ لے کر بھی خلع ہو سکتا ہے ۔ ربیع بنت معوذ بن عفراء فرماتی ہیں میرے خاوند اگر موجود ہوتے تو بھی میرے ساتھ سلوک کرنے میں کمی کرتے اور کہیں چلے جاتے تو بالکل ہی محروم کر دیتے ۔ ایک مرتبہ جھگڑے کے موقع پر میں نے کہہ دیا کہ میری ملکیت میں جو کچھ ہے لے لو اور مجھے خلع دو ۔ اس نے کہا اور یہ معاملہ فیصل ہو گیا لیکن میرے چچا سیدنا معاذ بن عفراء رضی اللہ عنہما اس قصہ کو لے کر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما کے پاس گئے ۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما نے بھی اسے برقرار رکھا اور فرمایا کہ چوٹی کی دھجی چھوڑ کر سب کچھ لے لو ، بعض روایتوں میں ہے یہ بھی اور اس سے چھوٹی چیز بھی غرض سب کچھ لے لو ، پس مطلب ان واقعات کا یہ ہے کہ یہ دلیل ہے اس پر کہ عورت کے پاس جو کچھ ہے دے کر وہ خلع کرا سکتی ہے اور خاوند اپنی دی ہوئی چیز سے زائد لے کر بھی خلع کر سکتا ہے ۔ سیدنا ابن عمر ، ابن عباس ، رضی اللہ عنہما مجاہد ، عکرمہ ، ابراہیم ، نخعی ، قیصہ بن ذویب ، حسن بن صالح عثمان رحم اللہ اجمعین بھی یہی فرماتے ہیں ۔ امام مالک ، لیث ، امام شافعی اور ابوثور رحمہ اللہ علیہم کا مذہب بھی یہی ہے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں اور اصحاب ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اگر قصور اور ضرر رسانی عورت کی طرف سے ہو تو خاوند کو جائز ہے کہ جو اس نے دیا ہے واپس لے لے ، لیکن اس سے زیادہ لینا جائز نہیں ۔ گو زیادہ لے لے تو بھی قضاء کے وقت جائز ہو گا اور اگر خاوند کی اپنی جانب سے زیادتی ہو تو اسے کچھ بھی لینا جائز نہیں ۔ گو ، لے لے تو قضاء جائز ہو گا ۔ امام احمد ابوعبید اور اسحٰق بن راھویہ رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں کہ خاوند کو اپنے دئیے ہوئے سے زیادہ لینا جائز ہی نہیں ۔ سعید بن مسیب عطاء عمرو بن شعیب زہری طاؤس حسن شعبی حماد بن ابو سلیمان اور ربیع بن انس رحمہ اللہ علیہم کا بھی یہی مذہب ہے ۔ معمر اور حاکم کہتے ہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہما کا بھی یہ فیصلہ ہے ۔ اوزاعی کا فرمان ہے کہ قاضیوں کا فیصلہ ہے کہ دئیے ہوئے سے زیادہ کو جائز نہیں جانتے ۔ اس مذہب کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جو اوپر بیان ہو چکی ہے جس میں ہے کہ اپنا باغ لے لو اور اس سے زیادہ نہ لو ۔ مسند عبد بن حمید میں بھی ایک مرفوع حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلع لینے والی عورت سے اپنے دئیے ہوئے سے زیادہ لینا مکروہ رکھا ، (دار قطنی:255/3:مرسل و ضعیف) اور اس صورت میں جو کچھ فدیہ وہ دے لے گا ، کا لفظ قرآن میں ہے ۔ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ دئیے ہوئے میں سے جو کچھ دے ، کیونکہ اس سے پہلے یہ فرمان موجود ہے کہ تم نے جو انہیں دیا ہے اس میں سے کچھ نہ لو ، ربیع کی قرأت میں «بِہِ» کے بعد «مِنْہُ» کا لفظ بھی ہے ۔ پھر فرمایا کہ یہ حدود اللہ ہیں ان سے تجاوز نہ کرو ورنہ گنہگار ہوں گے ۔ ( فصل ) خلع کو بعض حضرات طلاق میں شمار نہیں کرتے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر ایک شخص نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے دیں ہیں پھر اس عورت نے خلع کرا لیا ہے تو اگر خاوند چاہے تو اس سے پھر بھی نکاح کر سکتا ہے اور اس پر دلیل یہی آیت وارد کرتے ہیں ۔ یہ قول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ہے ، حضرت عکرمہ رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ طلاق نہیں ، دیکھو آیت کے اول و آخر طلاق کا ذِکر ہے پہلے دو طلاقوں کا پھر آخر میں تیسری طلاق کا اور درمیان میں جو خلع کا ذِکر ہے ۔ پس معلوم ہوا کہ خلع طلاق نہیں بلکہ فسخ ہے ۔ امیر المؤمنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہما اور ابن عمر رضی اللہ عنہما طاؤس عکرمہ ، احمد بن حنبل ، اسحاق بن راہویہ ، ابوثور ، داؤد بن علی ظاہری رحمہ اللہ علیہم کا بھی یہی مذہب ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی قدیم قول یہی ہے اور آیت کے ظاہری الفاظ بھی یہی ہیں ۔ بعض دیگر بزرگ فرماتے ہیں کہ خلع طلاق بائن ہے اور اگر ایک سے زیادہ کی نیت ہو گی تو وہ بھی معتبر ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ ام بکر اسلمیہ نے اپنے خاوند عبداللہ بن خالد سے خلع لیا اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما نے اسے ایک طلاق ہونے کا فتویٰ دیا اور ساتھ ہی فرما دیا کہ اگر کچھ سامان لیا ہو تو جتنا سامان لیا ہو وہ ہے ، لیکن یہ اثر ضعیف ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ سیدنا عمر ، سیدنا علی ، ابن مسعود ، ابن عمر رضی اللہ عنہم ، سعید بن مسیب ، حسن ، عطا ، شریح ، شعبی ، ابراہیم ، جابر بن زید ، مالک ، ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہم اور ان کے ساتھی ثوری ، اوزاعی ، ابوعثمان بتی رحمہ اللہ علیہم کا یہی قول ہے کہ خلع طلاق ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی جدید قول یہی ہے ، ہاں حنیفہ کہتے ہیں کہ اگر دو طلاق کی نیت خلع دینے والے کی ہے تو دو ہو جائیں گی ۔ اگر کچھ کچھ لفظ نہ کہے اور مطلق خلع ہو تو ایک طلاق بائن ہو گی اگر تین کی نیت ہے تو تین ہو جائیں گی ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک اور قول بھی ہے کہ اگر طلاق کا لفظ نہیں اور کوئی دلیل و شہادت بھی نہیں تو وہ بالکل کوئی چیز نہیں ۔ مسئلہ امام ابوحنیفہ ، شافعی احمد ، اسحٰق بن راہویہ رحمہم اللہ کا مسلک ہے کہ خلع کی عدت طلاق کی عدت ہے ۔ سیدنا عمر علی ابن مسعود رضی اللہ عنہم اور سعید بن مسیب ، سلمان بن یسار ، عروہ ، سالم ، ابوسلمہ ، عمر بن عبدالعزیز ، ابن شہاب ، حسن ، شعبی ، ابراہیم نخعی ، ابوعیاض ، خلاس بن عمرو ، قتادہ ، سفیان ثوری ، اوزاعی ، لیث بن سعد اور ابوعبید رحمتہ اللہ علیہم اجمعین کا بھی یہی فرمان ہے ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اکثر اہل علم اسی طرف گئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ چونکہ خلع طلاق ہے لہٰذا عدت اس کی عدت طلاق کے مثل ہے ، دوسرا قول یہ ہے کہ صرف ایک حیض اس کی عدت ہے ۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما کا یہی فیصلہ ہے ، سیدنا ابن عمر گو تین حیض کا فتویٰ دیتے تھے لیکن ساتھ ہی فرما دیا کرتے تھے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما ہم سے بہتر ہیں اور ہم سے بڑے عالم ہیں ، اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک حیض کی مدت بھی مروی ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ ، عکرمہ ، امان بن عثمان رحمہ اللہ اور تمام وہ لوگ جن کے نام اوپر آئے ہیں جو خلع کو فسخ کہتے ہیں ضروری ہے کہ ان سب کا قول بھی یہی ہو ، ابوداؤد اور ترمذی کی حدیث میں بھی یہی ہے کہ سیدنا ثابت بن قیس کی بیوی صاحبہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورت میں ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا تھا ، (سنن ابوداود:2229 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ترمذی میں ہے کہ سیدہ ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا کو بھی خلع کے بعد ایک ہی حیض عدت گزارنے کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان صادر ہوا تھا ۔ (سنن ترمذی:1185 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے خلع والی عورت سے فرمایا تھا کہ تجھ پر عدت ہی نہیں ۔ ہاں اگر قریب کے زمانہ میں ہی خاوند سے ملی ہو تو ایک حیض آ جانے تک اس کے پاس ٹھہری رہو ۔ مریم مغالبہ کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو فیصلہ تھا اس کی متابعت امیر المؤمنین نے کی ۔ (سنن نسائی:3528 ، قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) مسئلہ جمہور علمائے کرام اور چاروں اماموں کے نزدیک خلع والی عورت سے رجوع کرنے کا حق خاوند کو حاصل نہیں ، اس لیے کہ اس نے مال دے کر اپنے تئیں آزاد کرا لیا ہے ۔ عبداللہ بن ابی اوفی ، ماہان حنفی ، سعید اور زہری رحمہ اللہ علیہم کا قول ہے کہ اگر واپس کیا پھیر دے تو حق رجعت حاصل ہے بغیر عورت کی رضا مندی کے بھی رجوع کر سکتا ہے ۔ سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر خلع میں طلاق کا لفظ نہیں تو وہ صرف جدائی ہے اور رجوع کرنے کا حق نہیں اور اگر طلاق کا نام لیا ہے تو بیشک وہ رجعت کا پورا پورا حقدار ہے ، داؤد ظاہری رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں ، ہاں سب کا اتفاق ہے کہ اگر دونوں رضامند ہوں تو نیا نکاح عدت کے اندر اندر کر سکتے ہیں ۔ ابو عمر بن عبدالبر فرقہ سے یہ قول بھی روایت کرتے ہیں کہ اگر دونوں رضا مند ہوں تو نیا نکاح عدت کے ابدر اندر کر سکتے ہیں ، ابعمر بن عبدالبر فرقہ سے یہ قول بھی روایت کرتے ہیں کہ عدت کے اندر جس طرح دوسرا کوئی اس سے نکاح نہیں کر سکتا ، اسی طرح خلع دینے والا خاوند بھی نکاح نہیں کر سکتا ، لیکن یہ قول شاذ اور مردود ہے ۔ مسئلہ اس عورت پر عدت کے اندر اندر دوسری طلاق بھی واقع ہو سکتی ہے یا نہیں ؟ اس میں علماء کے تین قول ہیں ۔ ایک یہ کہ نہیں ، کیونکہ وہ عورت اپنے نفس کی مالکہ ہے اور اس خاوند سے الگ ہو گئی ہے ، سیدنا ابن عباس ابن زبیر رضی اللہ عنہما عکرمہ جابر بن زید حسن بصری شافعی احمد اسحاق ابوثور رحمہ اللہ علیہم کا یہی قول ہے ۔ دوسرا قول امام مالک رحمہ اللہ کا ہے کہ اگر خلع کے ساتھ ہی بغیر خاموش رہے طلاق دیدے تو واقع ہو جائے گی ورنہ نہیں ، یہ مثل اس کے ہے جو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ عدت میں طلاق واقع ہو جائے گی ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ان کے اصحاب ، ثوری ، اوزاعی ، سعید بن مسیب ، شریح ، طاؤس ، ابراہیم ، زہری ، حاکم ، حکم اور حماد رحمہ اللہ علیہم کا بھی یہی قول ہے ۔ سیدنا ابن مسعود اور ابوالدرداء رضی اللہ عنہما سے بھی یہ مروی تو ہے لیکن ثابت نہیں ۔ پھر فرمایا ہے کہ یہ اللہ کی حدیں ہیں ۔ صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ کی حدوں سے آگے نہ بڑھو ، فرائض کو ضائع نہ کرو ، محارم کی بے حرمتی نہ کرو ، جن چیزوں کا ذِکر شریعت میں نہیں تم بھی ان سے خاموش رہو کیونکہ اللہ کی ذات بھول چوک سے پاک ہے ۔ (حاکم:115/4:ضعیف و منقطع) اس آیت سے استدلال ہے ان لوگوں کا جو کہتے ہیں کہ تینوں طلاقیں ایک مرتبہ ہی دینا حرام ہیں ۔ مالکیہ اور ان کے موافقین کا یہی مذہب ہے ، ان کے نزدیک سنت طریقہ یہی ہے کہ طلاق ایک ایک دی جائے کیونکہ آیت «الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ» ( البقرہ : 229 ) کہا پھر فرمایا کہ یہ حدیں ہیں اللہ کی ، ان سے تجاوز نہ کرو ، اس کی تقویت اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو سنن نسائی میں ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مرتبہ یہ معلوم ہوا کہ کسی شخص نے اپنی بیوی کو تینوں طلاقیں ایک ساتھ دی ہیں ۔ آپ سخت غضبناک ہو کر کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے کیا میری موجودگی میں کتاب اللہ کے ساتھ کھیلا جانے لگا ۔ یہاں تک کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیں تو میں اس شخص کو قتل کروں ، لیکن اس روایت کی سند میں انقطاع ہے ۔ (سنن نسائی:3430 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح)