سورة مريم - آیت 76

وَيَزِيدُ اللَّهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدًى ۗ وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ مَّرَدًّا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور جن لوگوں نے راہ پالی تو وہ ان پر اور زیادہ راہ کھول دیتا ہے (یعنی ان کی فلاح و سعادت بڑھتی ہی جاتی ہے) اور تمہارے پروردگار کے حضور تو باقی رہنے والی نیکیاں ہی بہتر ہیں۔ ثواب کے اعتبار سے بھی اور نتیجہ کے اعتبار سے بھی۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

گمراہوں کی گمراہی میں ترقی جس طرح گمراہوں کی گمراہی بڑھتی رہتی ہے ، اسی طرح ہدایت والوں کی ہدایت بڑھتی رہتی ہے ۔ جیسے فرمان ہے کہ «وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَ‌ۃٌ فَمِنْہُم مَّن یَقُولُ أَیٰکُمْ زَادَتْہُ ہٰذِہِ إِیمَانًا فَأَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا فَزَادَتْہُمْ إِیمَانًا وَہُمْ یَسْتَبْشِرُ‌ونَ» الخ ۱؎ (9-التوبۃ:124) ’ جہاں کوئی سورت اترتی ہے تو بعض لوگ کہنے لگتے ہیں ، تم میں سے کس کو اس نے ایمان میں زیادہ کر دیا ؟ ‘ الخ ۔ باقیات صالحات کی پوری تفسیر ان ہی لفظوں کی تشریح میں سورۃ الکہف میں گزر چکی ہے ۔ یہاں فرماتا ہے کہ ’ یہی پائیدار نیکیاں جزا اور ثواب کے لحاظ سے اور انجام اور بدلے کے لحاظ سے نیکوں کے لیے بہتر ہیں ‘ ۔ عبدالرزاق میں ہے کہ { ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک خشک درخت تلے بیٹھے ہوئے تھے اس کی شاخ پکڑ کر ہلائی تو سوکھے پتے جھڑنے لگے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { دیکھو اسی طرح انسان کے گناہ «لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَرُ سُبْحَانَ اﷲِ وَالْحَمْدُِ ﷲِ» کہنے سے جھڑتے ہیں ۔ اے ابودرداء ان کا ورد رکھ اس سے پہلے کہ وہ وقت آئے کہ تو انہیں نہ کہہ سکے ، یہی باقیات صالحات ہیں ، یہی جنت کے خزانے ہیں } ۔ اس کو سن کر ابودرداء کا یہ حال تھا کہ اس حدیث کو بیان فرما کر فرماتے کہ واللہ میں تو ان کلمات کو پڑھتا ہی رہوں گا ، کبھی ان سے زبان نہ روکوں گا گو لوگ مجھے مجنون کہنے لگیں } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3813،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث دوسری سند سے ہے ۔