فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَن يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَن يَنقَضَّ فَأَقَامَهُ ۖ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا
وہ دونوں اور آگے بڑھے، یہاں تک کہ ایک گاؤں کے پاس پہنچے، گاؤں والے سے کہا ہمارے کھانے کا انتظام کرو، انہوں نے مہمان نوازی کرنے سے صاف انکار کردیا۔ پھر ان دونوں نے دیکھا گاؤں میں ایک (پرانی) دیوار ہے اور گرا چاہتی ہے، یہ دیکھ کر موسیٰ کے ساتھی نے (اس کی مرمت شروع کردی اور) اسے ازسرنو مضبوط کردیا۔ اس پر موسیٰ (سے نہ رہا گیا) بول اٹھا اگر آپ چاہتے تو اس محنت کا کچھ معاوضہ ان لوگوں سے وصول کرتے (بغیر معاوضہ کے بے کار کی محنت کیوں کی؟)
ایک اور انوکھی بات دو دفعہ کے اس واقعہ کے بعد پھر دونوں صاحب مل کر چلے اور ایک بستی میں پہنچے ۔ مروی ہے وہ بستی ایک تھی یہاں کے لوگ بڑے ہی بخیل تھے ۔ (صحیح مسلم:2380) انتہا یہ کہ دو بھوکے مسافروں کے طلب کرنے پر انہوں نے روٹی کھلانے سے بھی صاف انکار کر دیا ۔ وہاں دیکھتے ہیں کہ ایک دیوار گرنا ہی چاہتی ہے ، جگہ چھوڑ چکی ہے ، جھک پڑی ہے ۔ دیوار کی طرف ارادے کی اسناد بطور استعارہ کے ہے ۔ اسے دیکھتے ہی یہ کمر کس کر لگ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اسے مضبوط کر دیا اور بالکل درست کر دیا ۔ پہلے حدیث بیان ہو چکی ہے کہ آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اسے لوٹا دیا ۔ خم ٹھیک ہو گیا اور دیوار درست بن گئی ۔ اس وقت پھر کلیم اللہ علیہ السلام بول اٹھے کہ سبحان اللہ ان لوگوں نے تو ہمیں کھانے تک کو نہ پوچھا بلکہ مانگنے پر بھاگ گئے ۔ اب جو تم نے ان کی یہ مزدوری کر دی ، اس پر کچھ اجرت کیوں نہ لے لی جو بالکل ہمارا حق تھا ؟ اس وقت وہ بندہ الٰہی بول اٹھے ! لو صاحب اب مجھ میں اور آپ میں حسب معاہدہ خود جدائی ہو گئی ۔ کیونکہ بچے کے قتل پر آپ نے سوال کیا تھا اس وقت جب میں نے آپ کو اس غلطی پر متنبہ کیا تھا تو آپ نے خود ہی کہا تھا کہ اب اگر کسی بات کو پوچھوں تو مجھے اپنے ساتھ سے الگ کر دینا ۔ اب سنو ! جن باتوں پر آپ نے تعجب سے سوال کیا اور برداشت نہ کر سکے ، ان کی اصلی حکمت آپ پر ظاہر کئے دیتا ہوں ۔