يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
مسلمانو ! پوری طرح اور (اعتقاد و عمل کی) ساری باتوں میں مسلم ہوجاؤ۔ اور دیکھو شیطانی وسوسوں کی پیروی نہ کرو وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے
مکمل اطاعت ہی مقصود ہے اللہ تعالیٰ اپنے اوپر ایمان لانے والوں اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنے والوں سے ارشاد فرماتا ہے کہ وہ کل احکام کو بجا لائیں کل ممنوعات سے بچ جائیں کامل شریعت پر عمل کریں سلم سے مراد سلام ہے اطاعت اور صلح جوئی بھی مراد ہے «کافۃ» کے معنی سب کے سب پورے پورے ، عکرمہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ سیدنا عبداللہ بن سلام اسد بن عبید ثقلیہ رضی اللہ عنہما وغیرہ جو یہود سے مسلمان ہوئے تھے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی ہمیں ہفتہ کے دن کی عزت اور راتوں کے وقت توراۃ پر عمل کرنے کی اجازت دی جائے جس پر یہ آیت اتری کہ اسلامی احکام پر عمل کرتے رہو ، لیکن اس میں عبداللہ کا نام کچھ ٹھیک نہیں ہے معلوم ہوتا ہے وہ اعلیٰ عالم تھے اور پورے مسلمان تھے انہیں مکمل طور پر معلوم تھا کہ ہفتہ کے دن کی عزت منسوخ ہو چکی ہے اس کے بجائے اسلامی عید جمعہ کے دن کی مقرر ہو چکی ہے پھر ناممکن ہے کہ وہ ایسی خواہش میں اوروں کا ساتھ دیں ، بعض مفسرین نے «کافۃ» کو حال کہا ہے یعنی تم سب کے سب اسلام میں داخل ہو جاؤ ، لیکن پہلی بات زیادہ صحیح ہے یعنی اپنی طاقت بھر اسلام کے کل احکام کو مانو ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ بعض اہل کتاب باوجود ایمان لانے کے توراۃ کے بعض احکام پر جمے ہوئے تھے ان سے کہا جاتا ہے کہ محمدی دین میں پوری طرح آ جاؤ اس کا کوئی عمل نہ چھوڑو توراۃ پر صرف ایمان رکھنا کافی ہے ۔ پھر فرمان ہے کہ «إِنَّمَا یَأْمُرُکُم بِالسٰوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَن تَقُولُوا عَلَی اللہِ مَا لَا تَعْلَمُونَ» ( البقرہ : 169 ) اللہ کی اطاعت کرتے رہو شیطان کی نہ مانو وہ تو برائیوں اور بدکاریوں کو اور اللہ پر بہتان باندھنے کو اکساتا ہے ۔ «إِنَّ الشَّیْطَانَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوہُ عَدُوًّا إِنَّمَا یَدْعُو حِزْبَہُ لِیَکُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِیرِ» ( 35-فاطر : 6 ) اس کی اور اس کے گروہ کی تو خواہش یہ ہے کہ تم جہنمی بن جاؤ وہ تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے ۔ اگر تم دلائل معلوم کرنے کے بعد بھی حق سے ہٹ جاؤ تو جان رکھو کہ اللہ بھی بدلہ لینے میں غالب ہے نہ اس سے کوئی بھاگ کر بچ سکے نہ اس پر کوئی غالب ہے اپنی پکڑ میں وہ حکیم ہے اپنے امر میں وہ کفار پر غلبہ رکھتا ہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:591/2) اور عذروحجت کو کاٹ دینے میں حکمت رکھتا ہے ۔