وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَٰكِن لَّا يَعْلَمُونَ
اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ ایمان کی راہ اختیا کرو جس طرح اور لوگوں نے اختیار کی ہے تو کہتے ہیں کیا ہم بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح (یہ) بے وقوف آدمی ایمان لے آئے ہیں (یعنی جس طرح ان لوگوں نے بے سروسامنی و مظلومی کی حالت میں دعوت حق کا ساتھ دیا اسی طرح ہم بھی بے وقوف بن کر ساتھ دے دیں؟) یاد رکھو فی الحقیقت یہی لوگ بے وقوف ہیں اگرچہ (جہہل وغرور کی سرشاری میں اپنی حالت کا) شعور نہیں رکھتے
خود فریبی کے شکار لوگ مطلب یہ ہے کہ جب ان منافقوں کو صحابہ کی طرح اللہ تعالیٰ پر ، اس کے فرشتوں پر ، کتابوں اور رسولوں پر ایمان لانے ، موت کے بعد جی اٹھنے پر ، جنت دوزخ کی حقانیت کے تسلیم کرنے پر ، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کر کے نیک اعمال بجا لانے اور برائیوں سے رکے رہنے کو کہا جاتا ہے تو یہ ملعون فرقہ ایسے ایمان والوں کو بےوقوف قرار دیتا ہے ۔ سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم ، ربیع بن انس ، عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ علیہم وغیرہ نے یہی تفسیر بیان کی ہے ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:293/1) «سٰفَہَاءٌ» «سَفِیْہٌ» کی جمع ہے جیسے «حکماء» «حکیم» کی اور «حلماء» «حلیم» کی ۔ جاہل ، کم عقل اور نفع نقصان کے پوری طرح نہ جاننے والے کو «سفیہ» کہتے ہیں ۔ قرآن میں اور جگہ ہے : «وَلَا تُؤْتُوا السٰفَہَاءَ أَمْوَالَکُمُ الَّتِی جَعَلَ اللہُ لَکُمْ قِیَامًا» ۲؎ (4-النساء:5) الخ یعنی ’بیوقوفوں کو اپنے وہ مال نہ دے بیٹھو جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے قیام کا سبب بنایا ہے‘ ۔ عام مفسرین کا قول ہے کہ اس آیت میں «سٰفَہَاءُ» سے مراد عورتیں اور بچے ہیں ۔ ان منافقین کے جواب میں یہاں بھی خود پروردگار عالم نے جواب دیا اور تاکیداً «حصر» کے ساتھ فرمایا کہ بیوقوف تو یہی ہیں لیکن ساتھ ہی جاہل بھی ایسے ہیں کہ اپنی بیوقوفی کو جان بھی نہیں سکتے ۔ نہ اپنی جہالت و ضلالت کو سمجھ سکتے ہیں ، اس سے زیادہ ان کی برائی اور کمال اندھا پن اور ہدایت سے دوری اور کیا ہو گی ؟