وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا ۖ إِنَّكَ لَن تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَن تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولًا
اور زمین پر اکڑ کے نہ چلو، یقینا تم زمین میں شگاف نہیں ڈال سکتے اور نہ پہاڑوں کی لمبان تک پہنچ جاسکتے ہو۔
تکبر کے ساتھ چلنے کی ممانعت اکڑ کر ، اترا کر ، تکبر کے ساتھ چلنے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو منع فرماتا ہے ۔ یہ عادت سرکش اور مغرور لوگوں کی ہے ۔ پھر اسے نیچا دکھانے کے لیے فرماتا ہے کہ گو کتنے ہی بلند سر ہو کر چلو لیکن پہاڑ کی بلندی سے پست ہی رہو گے اور گو کیسے ہی کھٹ پٹ کرتے ہوئے پاؤں مار مار کر چلو لیکن زمین کو پھاڑنے سے رہے ۔ بلکہ ایسے لوگوں کا حال برعکس ہوتا ہے ۔ جیسے کہ حدیث میں ہے کہ { ایک شخص چادر جوڑے میں اتراتا ہوا چلا جارہا تھا جو وہیں زمین میں دھنسا دیا گیا جو آج تک دھنستا ہوا چلا جارہا ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:5789) قرآن میں قارون کا قصہ موجود ہے کہ وہ مع اپنے محلات کے زمین دوز کر دیا گیا ۔ ہاں تواضع ، نرمی ، فروتنی اور عاجزی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ بلند کرتا ہے وہ اپنے آپ کو حقیر سمجھتا ہے اور لوگ اسے جلیل القدر سمجھتے ہیں اور تکبر کرنے والا اپنے تئیں بڑا آدمی سمجھتا ہے اور لوگوں کی نگاہوں میں وہ ذلیل و خوار ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ اسے کتوں اور سوروں سے بھی زیادہ حقیر جانتے ہیں ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2659) امام ابوبکر بن ابی الدنیا رحمہ اللہ اپنی کتاب المحمول والتواضع میں لائے ہیں کہ ابن الاہیم دربار منصور میں جا رہا تھا ریشمی جبہ پہنے ہوئے تھا اور پنڈلیوں کے اوپر سے اسے دوہرا سلوایا تھا کہ نیچے سے قباء بھی دکھائی دیتی رہے اور اکڑتا اینڈتا جا رہا تھا ۔ حسن رحمہ اللہ نے اسے اس حالت میں دیکھ کر فرمایا افوہ نک چڑھا ، بل کھایا ، رخساروں پھولا ، اپنے ڈنڈ بازو دیکھتا ، اپنے تیئں تولتا ، سمتوں کے ذکر و شکر کو بھولا ، رب کے احکام کو چھوڑے ہوئے ، اللہ کے حق کو توڑا ، دیوانوں کی چال چلتا ، عضو عضو میں کسی کی دی ہوئی نعمت رکھتا ، شیطان کی لعنت کا مارا ہوا دیکھو جا رہا ہے ۔ ابن الاہیم نے سن لیا اور اسی وقت لوٹ آیا اور عذر بہانہ کرنے لگا ۔ آپ نے فرمایا مجھ سے کیا معذرت کرتا ہے اللہ تعالیٰ سے توبہ کر اور اسے ترک کر ۔ کیا تو نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا آیت «وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا ۚ اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا » ۱؎ (17-الإسراء:37) ۱؎ (ابن ابی دنیا:237) عابد بختری رحمہ اللہ نے آل علی میں سے ایک شخص کو اکڑتے ہوئے چلتا دیکھ کر فرمایا اے شخص جس نے تجھے یہ اکرام دیا ہے اس کی روش ایسی نہ تھی ۔ اس نے اسی وقت توبہ کر لی ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک ایسے شخص کو دیکھ کر فرمایا جو اکڑ اکڑ کر چل رہا تھا کہ شیطان کے یہی بھائی ہوتے ہیں ۔ خالد بن معدان رحمہ اللہ فرماتے ہیں لوگو اکڑ اکڑ کر چلنا چھوڑو اس لیے کہ انسان کے ہاتھ بھی اس کے باقی جسم میں سے ہیں ۔ ابن ابی الدنیا میں حدیث ہے کہ { جب میری امت غرور اور تکبر کی چال چلنے لگے گی اور فارسیوں اور رومیوں کو اپنی خدمت میں لگائے گی تو اللہ تعالیٰ ایک کو ایک پر مسلط کر دے گا ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:2261،قال الشیخ الألبانی:صحیح) «سَیِّئُہُ» کی دوسری قرأت «سیئہ» ہے تو معنی یہ ہوئے کہ جن جن کاموں سے ہم نے تمہیں روکا ہے یہ سب کام نہایت برے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ ہیں ۔ یعنی اپنی اولاد کو قتل نہ کرو سے لے کر اکڑ کر نہ چلو تک کے تمام کام ۔ اور «سیئہ »کی قرأت پر مطلب یہ ہے کہ آیت «وَقَضَیٰ رَبٰکَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِیَّاہُ» (17-الإسراء:23) سے یہاں تک جو حکم احکام اور جو ممانعت اور روک بیان ہوئی اس میں جن برے کاموں کا ذکر ہے وہ سب اللہ کے نزدیک مکروہ کام ہیں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے یہی توجیہ بیان فرمائی ہے ۔