رَّبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ ۚ إِن تَكُونُوا صَالِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلْأَوَّابِينَ غَفُورًا
تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے جو کچھ تمہارے جی میں ہوتا ہے، اگر تم نیک کردار ہوئے (اور بغیر قصد کے تم سے کوئی فروگزاشت ہوگئی) تو (اس کی وجہ سے تمہیں مضطرب نہیں ہونا چاہیے) وہ بلاشبہ توبہ کرنے والوں کے لیے بڑا ہی بخشنے والا ہے۔
گناہ اور استغفار اس سے مراد وہ لوگ ہیں ، جن سے جلدی میں اپنے ماں باپ کے ساتھ کوئی ایسی بات ہو جاتی ہے جسے وہ اپنے نزدیک عیب کی اور گناہ کی بات نہیں سمجھتے ہیں ، چونکہ ان کی نیت بخیر ہوتی ہے اس لیے اللہ ان پر رحمت کرتا ہے ، جو ماں باپ کا فرمانبردار نمازی ہو اس کی خطائیں اللہ کے ہاں معاف ہیں ۔ کہتے ہیں کہ اوابین وہ لوگ ہیں جو مغرب و عشاء کے درمیان نوافل پڑھیں ۔ بعض کہتے ہیں جو صبح کی نماز ادا کرتے رہیں ، جو ہر گناہ کے بعد توبہ کر لیا کریں ۔ جو جلدی سے بھلائی کی طرف لوٹ آیا کریں ۔ تنہائی میں اپنے گناہوں کو یاد کر کے خلوص دل سے استغفار کر لیا کریں ۔ عبید کہتے ہیں جو برابر ہر مجلس سے اٹھتے ہوئے یہ دعا پڑھ لیا کریں ۔ ( دعا ) « اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی مَا أَصَبْتُ فِی مَجْلِسِی ہَذَا » ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اولیٰ قول یہ ہے کہ جو گناہ سے توبہ کر لیا کریں ۔ معصیت سے اطاعت کی طرف آجایا کریں ۔ اللہ کی ناپسندیدگی کے کاموں کو ترک کرکے اس کی رضا مندی اور پسندیدگی کے کام کرنے لگیں ۔ یہی قول بہت ٹھیک ہے کیونکہ لفظ اواب مشتق ہے اوب سے اور اس کے معنی رجوع کرنے کے ہیں جیسے عرب کہتے ہیں ” اب فلان “ اور جیسے قرآن میں ہے آیت «إِنَّ إِلَیْنَا إِیَابَہُمْ » (88-الغاشیۃ:25) ’ ان کا لوٹنا ہماری ہی طرف ہے ۔ ‘ صحیح حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے لوٹتے تو فرماتے [دعا] « آیِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ» لوٹنے والے توبہ کرنے والے عبادتیں کرنے والے اپنے رب کی ہی تعریفیں کرنے والے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:1797)