سورة الإسراء - آیت 18

مَّن كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَن نُّرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَّدْحُورًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جو کوئی فوری فائدہ (اسی دنیا میں) چاہتا ہے تو جس کسی کو ہم دینا چاہیں، اور جتنا دینا چاہیں اسی دنیا میں دے دیتے ہیں، پھر آخرکار اس کے لیے جہنم بنا دی ہے، اس میں داخل ہوگا بدحال، ٹھکرایا ہوا۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

طالب دنیا کی چاہت کچھ ضروری نہیں کہ طالب دنیا کی ہر ایک چاہت پوری ہو ، جس کا جو ارادہ اللہ پورا کرنا چاہے کر دے لیکن ہاں ایسے لوگ آخرت میں خالی ہاتھ رہ جائیں گے ۔ یہ تو وہاں جہنم کے گڑھے میں گھرے ہوئے ہوں گے نہایت برے حال میں ذلت و خواری میں ہوں گے ۔ کیونکہ یہاں انہوں نے یہی کیا تھا ، فانی کو باقی پر دنیا کو آخرت پر ترجیح دی تھی اس لیے وہاں رحمت الٰہی سے دور ہیں ۔ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دنیا اس کا گھر ہے جس کا آخرت میں گھر نہ ہو ، یہ اس کا مال ہے جس کا آخرت میں مال نہ ہو ، اسے وہی جمع کرتا رہتا ہے جس کے پاس اپنی گرہ کی عقل بالکل نہ ہو ۔ } ۱؎ (مسند احمد:71/6:قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ہاں جو صحیح طریقے سے طالب دار آخرت ہو جائے اور آخرت میں کام آنے والی نیکیاں سنت کے مطابق کرتا رہے اور اس کے دل میں بھی ایمان تصدیق اور یقین ہو عذاب و ثواب کے وعدے صحیح جانتا ہو ، اللہ و رسول کو مانتا ہو ، ان کی کوشش قدر دانی سے دیکھی جائے گی نیک بدلہ ملے گا ۔