سورة الإسراء - آیت 16

وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور جب ہمیں منظور ہوتا ہے کہ کسی بستی کو ہلاک کردیں تو ایسا ہوتا ہے کہ اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں (یعنی وحی کے ذریعہ سے احکام حق پہنچا دیتے ہیں) پھر وہ بجائے اس کے کہ اس کی تعمیل کریں، نافرمانی میں سرگرم ہوجاتے ہیں، پس ان پر عذاب کی بات ثابت ہوجاتی ہے اور (پاداش عمل میں) انہیں برباد و ہلاک کر ڈالتے ہیں۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

تقدیر اور ہمارے اعمال مشہور قرأت تو «أَمَرْنَا» ہے اس امر سے مراد تقدیری امر ہے جیسے اور آیت میں ہے : «أَتَاہَآ أَمْرُنَا لَیْلاً أَوْ نَہَارًا » ۱؎ (10-یونس:24) ’ یعنی وہاں ہمارہ مقرر کردہ امر آجاتا ہے ، رات کو یا دن کو ۔ ‘ یاد رہے کہ اللہ برائیوں کا حکم نہیں کرتا ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ فحش کاریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اس وجہ سے مستحق عذاب ہو جاتے ہیں کہ ہم انہیں اپنی اطاعت کے احکام کرتے ہیں اور برائیوں میں لگ جاتے ہیں پھر ہمارا سزا کا قول ان پر راست آ جاتا ہے جن کی قرأت «أَمُرْنَا »ہے وہ کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ وہاں کے سردار ہم بدکاروں کو بنا دیتے ہیں وہ وہاں اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں یہاں تک کہ عذاب الٰہی انہیں اس بستی سمیت تہس نہس کر دیتا ۔ جیسے فرمان ہے : «وَکَذلِکَ جَعَلْنَا فِی کُلِّ قَرْیَۃٍ أَکَـبِرَ مُجْرِمِیہَا» ۱؎ (6-الأنعام:123) ’ اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں وہاں کے رئیسوں ہی کو جرائم کا مرتکب بنایا ۔ ‘ سیدنا ابن عباسؓ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یعنی ہم ان کے دشمن بڑھا دیتے ہیں وہاں سرکشوں کی زیادتی کر دیتے ہیں ۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے { بہترین مال جانور ہے جو زیادہ بچے دینے والا ہو یا راستہ ہے جو کھجور کے درختوں سے گھرا ہوا ہو ۔ } ۱؎ (مسند احمد:468/3:ضعیف) جیسے آپ کا قول ہے { گناہ والیاں نہ کہ اجر پانے والیاں ۔ ۱؎ } (سنن ابن ماجہ:1578،قال الشیخ الألبانی:ضعیف)