سورة الإسراء - آیت 12

وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ آيَتَيْنِ ۖ فَمَحَوْنَا آيَةَ اللَّيْلِ وَجَعَلْنَا آيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ وَلِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ ۚ وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنَاهُ تَفْصِيلًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (دیکھو) ہم نے رات اور دن کو ایسا بنایا کہ (ہماری قدرت و حکمت کی) دو نشانیاں ہوگئیں۔ سورات کی نشان دھیمی کردی (کہ راحت و سکون کا وقت بن جائے) اور دن کی نشانی روشن کردی کہ ( اس کے اجالے میں) اپنے پروردگار کا فضل ڈھونڈو (یعنی معیشت کا سروسامان مہیا کرو) نیز (رات دن کے اختلاف سے) برسوں کی گنتی اور (برسوں کی گنتی سے ہر طرح کا) حساب بھی معلوم کرلو۔ ہم نے (قرآن میں) ہر چیز کا بیان کھول کھول کر الگ الگ واضح کردیا ہے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

دن اور رات کے فوائد اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے دو کا یہاں بیان فرماتا ہے کہ دن رات اس نے الگ الگ طرح کے بنائے ۔ رات آرام کے لیے دن تلاش معاش کیلئے ۔ کہ اس میں کام کاج کرو صنعت و حرفت کرو سیر و سفر کرو ۔ رات دن کے اختلاف سے دنوں کی ، مہینوں کی ، برسوں کی گنتی معلوم کر سکو تاکہ لین دین میں ، معاملات میں ، قرض میں ، مدت میں ، عبادت کے کاموں میں سہولت اور پہچان ہو جائے ۔ اگر ایک وقت رہتا تو بڑی مشکل ہو جاتی سچ ہے «قُلْ أَرَأَیْتُمْ إِن جَعَلَ اللہُ عَلَیْکُمُ اللَّیْلَ سَرْمَدًا إِلَیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ مَنْ إِلٰہٌ غَیْرُ اللہِ یَأْتِیکُم بِضِیَاءٍ» ۱؎ (28-القصص:71) ’ اگر اللہ چاہتا تو ہمیشہ رات ہی رات رکھتا کوئی اتنی قدرت نہیں رکھتا کہ دن کر دے ۔ ‘ «قُلْ أَرَأَیْتُمْ إِن جَعَلَ اللہُ عَلَیْکُمُ النَّہَارَ سَرْمَدًا إِلَیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ مَنْ إِلٰہٌ غَیْرُ اللہِ یَأْتِیکُم بِلَیْلٍ تَسْکُنُونَ فِیہِ » ۱؎ (28-القصص:72) ’ اور اگر وہ ہمیشہ دن ہی دن رکھتا تو کس کی مجال تھی کہ رات لا دے ؟ ‘ یہ نشانات قدرت سننے دیکھنے کے قابل ہیں ۔ «وَمِن رَّحْمَتِہِ جَعَلَ لَکُمُ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ لِتَسْکُنُوا فِیہِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِہِ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ» ۱؎ (28-القصص:73) ’ یہ اسی کی رحمت ہے کہ رات سکون کے لیے بنائی اور دن تلاش معاش کے لیے ۔ ‘ «تَبَارَکَ الَّذِی جَعَلَ فِی السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِیہَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مٰنِیرًا * وَہُوَ الَّذِی جَعَلَ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ خِلْفَۃً لِّمَنْ أَرَادَ أَن یَذَّکَّرَ أَوْ أَرَادَ شُکُورًا» ۱؎ (25-الفرقان:61-62) ’ ان دونوں کو ایک دوسرے کے پیچھے لگاتار آنے والے بنایا تاکہ شکرو نصیحت کا ارادہ رکھنے والے کامیاب ہو سکیں ۔ ‘ اسی کے ہاتھ رات دن کا اختلاف ہے وہ رات کا پردہ دن پر اور دن کا نقاب رات پر چڑھا دیتا ہے ۔ «یُکَوِّرُ اللَّیْلَ عَلَی النَّہَارِ وَیُکَوِّرُ النَّہَارَ عَلَی اللَّیْلِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ کُلٌّ یَجْرِی لِأَجَلٍ مٰسَمًّی ۗ أَلَا ہُوَ الْعَزِیزُ الْغَفَّارُ » ۱؎ (39-الزمر:1) ’ سورج چاند اسی کی ماتحتی میں ہے ہر ایک اپنے مقررہ وقت پر چل پھر رہا ہے وہ اللہ غالب اور غفار ہے ۔ ‘ «وَآیَۃٌ لَّہُمُ اللَّیْلُ نَسْلَخُ مِنْہُ النَّہَارَ فَإِذَا ہُم مٰظْلِمُونَ * وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقَرٍّ لَّہَا ۚ ذٰلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ » ۱؎ ۱؎(36-یس:37-38) ’ صبح کا چاک کرنے والا ہے اسی نے رات کو سکون والی بنایا ہے اور سورج چاند کو مقرر کیا ہے یہ اللہ عزیز و حلیم کا مقرر کیا ہوا اندازہ ہے ۔ ‘ رات اپنے اندھیرے سے چاند کے ظاہر ہونے سے پہچانی جاتی ہے اور دن روشنی سے اور سورج کے چڑھنے سے معلوم ہو جاتا ہے ۔ سورج چاند دونوں ہی روشن اور منور ہیں لیکن ان میں بھی پورا تفاوت رکھا کہ ہر ایک پہچان لیا جا سکے ۔ «ہُوَ الَّذِی جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَہُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِینَ وَالْحِسَابَ ۚ مَا خَلَقَ اللہُ ذٰلِکَ إِلَّا بِالْحَقِّ » ۱؎ (10-یونس:5) ’ سورج کو بہت روشن اور چاند کو نورانی اسی نے بنایا ہے منزلیں اسی نے مقرر کی ہیں تاکہ حساب اور سال معلوم رہیں ۔ ‘ اللہ کی یہ پیدائش حق ہے ۔ الخ قرآن میں ہے«یَسْأَلُونَکَ عَنِ الْأَہِلَّۃِ ۖ قُلْ ہِیَ مَوَاقِیتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ» ۱؎ (2-البقرۃ:189) ’ لوگ تجھ سے چاند کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دے کہ وہ لوگوں کے لیے اوقات ہیں اور حج کے لیے بھی ۔ ‘ الخ رات کا اندھیرا ہٹ جاتا ہے دن کا اجالا آ جاتا ہے ۔ سورج دن کی علامت ہے چاند رات کا نشان ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے چاند کو کچھ سیاہی والا پیدا کیا ہے پس رات کی نشانی چاند کو بہ نسبت سورج کے ماند کر دیا ہے اس میں ایک طرح کا دھبہ رکھ دیا ہے ۔ ابن الکواء نے امیر المؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ چاند میں یہ جھائیں کیسی ہے ؟ آپ نے فرمایا اسی کا بیان اس آیت میں ہے کہ ہم نے رات کے نشان یعنی چاند میں سیاہ دھندلکا ڈال دیا اور دن کا نشان خوب روشن ہے یہ چاند سے زیادہ منور اور چاند سے بہت بڑا ہے دن رات کو دو نشانیاں مقرر کر دی ہیں پیدائش ہی ان کی اسی طرح کی ہے ۔