سورة الرعد - آیت 33

أَفَمَنْ هُوَ قَائِمٌ عَلَىٰ كُلِّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ ۗ وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ ۚ أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَم بِظَاهِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ ۗ بَلْ زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مَكْرُهُمْ وَصُدُّوا عَنِ السَّبِيلِ ۗ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پھر جس ہستی کے علم و احاطہ کا یہ حال ہے کہ ہر جان پر نگاہ رکھتی ہے کہ اس نے اپنے عملوں سے کیسی کمائی کی؟ (وہ کیا ان ہستیوں کی طرح سمجھ لی جاسکتی ہے جنہیں ان لوگوں نے معبود بنا رکھا ہے؟) اور انہوں نے اللہ کے لیے شریک ٹھہرا رکھے ہیں، (اے پیغمبر) ان سے پوچھ وہ کون ہیں؟ ان کے اوصاف بیان کرو، یا پھر تم اللہ کو ایسی بات کی خبر دینی چہاتے ہو جو خود اسے بھی معلوم نہیں کہ زمین میں کہاں ہے؟ یا پھر محض ایک دکھاوے کی بات ہے جس کی تہہ میں کوئی اصلیت نہیں؟ اصل یہ ہے کہ منکروں کی نگاہوں میں ان کی مکاریاں خوشنما بن گئیں اور راہ حق میں قدم اٹھانے سے رک گئے اور جس پر اللہ (کامیابی کی) راہ بند کردے تو کون ہے جو اسے راہ دکھانے والا ہوسکتا ہے؟

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

عالم خیر و شر اللہ تعالیٰ ہر انسان کے اعمال کا محافظ ہے ہر ایک کے اعمال کو جانتا ہے ، ہر نفس پر نگہبان ہے ، ہر عامل کے خیر و شر کے علم سے باخبر ہے ۔ کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ، کوئی کام اس کی بے خبری میں نہیں ہوتا ۔ ہر حالت کا اسے علم ہے ہر عمل پر وہ موجود ہے «وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَۃٍ إِلَّا یَعْلَمُہَا» ۱؎ (6-الأنعام:59) ’ ہر پتے کے جھڑنے کا اسے علم ہے ‘ ۔ «وَمَا مِن دَابَّۃٍ فِی الْأَرْضِ إِلَّا عَلَی اللہِ رِزْقُہَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّہَا وَمُسْتَوْدَعَہَا کُلٌّ فِی کِتَابٍ مٰبِینٍ» ۱؎ (11-ھود:6) ’ ہر جاندار کی روزی اللہ کے ذمے ہے ہر ایک کے ٹھکانے کا اسے علم ہے ہر بات اس کی کتاب میں لکھی ہوئی ہے ‘ ، «یَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَی» ۱؎ (20-طہ:7) ’ ظاہر وباطن ہر بات کو وہ جانتا ہے ‘ «وَمَا تَکُونُ فِی شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْہُ مِن قُرْآنٍ وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا کُنَّا عَلَیْکُمْ شُہُودًا إِذْ تُفِیضُونَ فِیہِ» ۱؎ (10-یونس:61) ’ تم جہاں ہو وہاں اللہ تمہارے ساتھ ہے تمہارے اعمال دیکھ رہا ہے ان صفتوں والا اللہ کیا تمہارے ان جھوٹے معبودوں جیسا ہے ؟ جو نہ سنیں ، نہ دیکھیں ، نہ اپنے لیے کسی چیز کے مالک ، نہ کسی اور کے نفع نقصان کا انہیں اختیار ‘ ۔ اس جواب کو حذف کر دیا کیونکہ دلالت کلام موجود ہے ۔ اور وہ فرمان الٰہی «وَجَعَلُوا لِلہِ شُرَکَاءَ قُلْ سَمٰوہُمْ أَمْ تُنَبِّئُونَہُ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی الْأَرْضِ أَمْ بِظَاہِرٍ مِنَ الْقَوْلِ بَلْ زُیِّنَ لِلَّذِینَ کَفَرُوا مَکْرُہُمْ وَصُدٰوا عَنِ السَّبِیلِ وَمَنْ یُضْلِلِ اللہُ فَمَا لَہُ مِنْ ہَادٍ» ۱؎ (13-الرعد:33) ہے ، ’ انہوں نے اللہ کے ساتھ اوروں کو شریک ٹھہرایا اور ان کی عبادت کرنے لگے تم ذرا ان کے نام تو بتاؤ ان کے حالات تو بیان کرو تاکہ دنیا جان لے کہ وہ محض بے حقیقت ہیں کیا تم زمین کی جن چیزوں کی خبر اللہ کو دے رہے ہو جنہیں وہ نہیں جانتا یعنی جن کا وجود ہی نہیں ‘ ۔ اس لیے کہ اگر وجود ہوتا تو علم الٰہی سے باہر نہ ہوتا کیونکہ اس پر کوئی مخفی سے مخفی چیز بھی حقیقتاً مخفی نہیں یا صرف اٹکل پچو باتیں بنا رہے ہو ؟ «إِنْ ہِیَ إِلَّا أَسْمَاءٌ سَمَّیْتُمُوہَا أَنتُمْ وَآبَاؤُکُم مَّا أَنزَلَ اللہُ بِہَا مِن سُلْطَانٍ إِن یَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَہْوَی الْأَنفُسُ وَلَقَدْ جَاءَہُم مِّن رَّبِّہِمُ الْہُدَیٰ» ۱؎ (53-النجم:23) ’ فضول گپ مار رہے ہو تم نے آپ ان کے نام گھڑ لیے ، تم نے ہی انہیں نفع نقصان کا مالک قرار دیا اور تم نے ہی ان کی پوجا پاٹ شروع کر دی ۔ یہی تمہارے بڑے کرتے رہے ‘ ۔ نہ تو تمہارے ہاتھ میں کوئی ربانی دلیل ہے نہ اور کوئی ٹھوس دلیل یہ تو صرف وہم پرستی اور خواہش پروری ہے ۔ ہدایت اللہ کی طرف سے نازل ہو چکی ہے ۔ کفار کا مکر انہیں بھلے رنگ میں دکھائی دے رہا ہے وہ اپنے کفر پر اور اپنے شرک پر ہی ناز کر رہے ہیں دن رات اسی میں مشغول ہیں اور اسی کی طرف اوروں کو بلا رہے ہیں ۔ جیسے فرمایا «وَقَیَّضْنَا لَہُمْ قُرَنَاءَ فَزَیَّنُوْا لَہُمْ مَّا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَحَقَّ عَلَیْہِمُ الْقَوْلُ فِیْٓ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنَّہُمْ کَانُوْا خٰسِرِیْنَ» ۱؎ (41 ۔ فصلت:25) ، ’ ان کے شیطانوں نے ان کی بےڈھنگیاں ان کے سامنے دلکش بنا دی ہیں یہ راہ اللہ سے طریقہ ہدی سے روک دیئے گئے ہیں ‘ ۔ «وَصُدٰوا» ایک قرأت اس کی «وَصَدٰوْا» بھی ہے یعنی انہوں نے اسے اچھا جان کر پھر اوروں کو اس میں پھانسنا شروع کر دیا اور راہ رسول سے لوگوں کو روکنے لگے رب کے گمراہ کئے ہوئے لوگوں کو کون راہ دکھا سکے ؟ جیسے فرمایا «وَمَن یُرِدِ اللہُ فِتْنَتَہُ فَلَن تَمْلِکَ لَہُ مِنَ اللہِ شَیْئًا» ۱؎ (5-المائدہ:41) ’ جسے اللہ فتنے میں ڈالنا چاہے تو اس کے لیے اللہ کے ہاں کچھ بھی تو اختیار نہیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے «إِن تَحْرِصْ عَلَیٰ ہُدَاہُمْ فَإِنَّ اللہَ لَا یَہْدِی مَن یُضِلٰ وَمَا لَہُم مِّن نَّاصِرِینَ» ۱؎ (16-النحل:37) ’ گو تو ان کی ہدایت کا لالچی ہو لیکن اللہ ان گمراہوں کو راہ دکھانا نہیں چاہتا پھر کون ہے جو ان کی مدد کرے ‘ ۔