لَهُ دَعْوَةُ الْحَقِّ ۖ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ لَا يَسْتَجِيبُونَ لَهُم بِشَيْءٍ إِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهِ ۚ وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ
اسی کو پکارنا سچا پکارنا ہے، جو لوگ اس کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں وہ پکارنے والوں کی کچھ نہیں سنتے، ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی (پیاس کی شدت میں) دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے کہ بس (اس طرح کرنے سے) پانی اس کے منہ تک پہنچ جائے گا حالانکہ وہ اس تک پہنچنے والا نہیں۔ (١) اور (یقین کرو) منکرین حق کی پکار اس کے سوا کچھ نہیں کہ ٹیڑھے رستوں میں بھٹکتے پھرنا۔
دعوت حق سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” اللہ کے لیے دعوت حق ہے ، اس سے مراد توحید ہے “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:364/7:) محمد بن منکدر کہتے ہیں مراد «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» ہے ۔ پھر مشرکوں کافروں کی مثال بیان ہوئی کہ ’ جیسے کوئی شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلائے ہوئے ہو کہ اس کے منہ میں خودبخود پہنچ جائے تو ایسا نہیں ہونے کا ۔ اسی طرح یہ کفار جنہیں پکارتے ہیں اور جن سے امیدیں رکھتے ہیں ، وہ ان کی امیدیں پوری نہیں کرنے کے ‘ ۔ اور یہ مطلب بھی ہے کہ ’ جیسے کوئی اپنی مٹھیوں میں پانی بند کرلے تو وہ رہنے کا نہیں ‘ ۔ پس باسط قابض کے معنی میں ہے ۔ عربی شعر میں «فَإِنِّی وَإیَّاکُمْ وَشَوْقًا إِلَیْکُمُ کَقَابِضِ مَاءٍ لَمْ تَسْقِہِ أَنَامِلُہُ» «فَأَصْبَحْتُ ممَّا کَانَ بَیْنِی وَبَیْنَہَا» «مِنَ الوُدِّ مِثْلَ الْقَابِضِ الْمَاءَ بِالْیَدِ» بھی «قَابِضِ الْمَاءَ» آیا ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:364/7:) پس جیسے پانی مٹھی میں روکنے والا اور جیسے پانی کی طرف ہاتھ پھیلانے والا پانی سے محروم ہے ، ایسے ہی یہ مشرک اللہ کے سوا دوسروں کو گو پکاریں لیکن رہیں گے محروم ہی دین دنیا کا کوئی فائدہ انہیں نہ پہنچے گا ۔ ان کی پکار بےسود ہے ۔