سورة الرعد - آیت 12

هُوَ الَّذِي يُرِيكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَيُنشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

وہی ہے جو تمہیں بجلی کی چمک دکھاتا ہے، وہ دلوں میں ہراس بھی پیدا کردیتی ہے اور امید بھی۔ اور وہی ہے جو بادلوں کو (پانی سے) بوجھل کردیتا ہے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

بجلی کر گرج بجلی بھی اس کے حکم میں ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک سائل کے جواب میں کہا تھا کہ برق پانی ہے ۔ مسافر اسے دیکھ کر اپنی ایذاء اور مشقت کے خوف سے گھبراتا ہے اور مقیم برکت ونفع کی امید پر رزق کی زیادتی کا لالچ کرتا ہے ، وہی بوجھل بادلوں کو پیدا کرتا ہے جو بوجہ پانی کے بوجھ کے زمین کے قریب آ جاتے ہیں ۔ پس ان میں بوجھ پانی کا ہوتا ہے ۔ پھر فرمایا کہ کڑک بھی اس کی تسبیح و تعریف کرتی ہے ۔ ایک اور جگہ ہے کہ «وَإِن مِّن شَیْءٍ إِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہِ» ۱؎ (17-الإسراء:44) ’ ہر چیز اللہ کی تسبیح وحمد کرتی ہے ‘ ۔ ایک حدیث میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ بادل پیدا کرتا ہے جو اچھی طرح بولتے ہیں اور ہنستے ہیں } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:1665:صحیح) ممکن ہے بولنے سے مراد گرجنا اور ہنسنے سے مراد بجلی کا ظاہر ہونا ہے ۔ سعد بن ابراہیم کہتے ہیں اللہ تعالیٰ بارش بھیجتا ہے اس سے اچھی بولی اور اس سے اچھی ہنسی والا کوئی اور نہیں ۔ اس کی ہنسی بجلی ہے اور اس کی گفتگو گرج ہے ۔ محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ برق ایک فرشتہ ہے جس کے چار منہ ہیں ایک انسان جیسا ایک بیل جیسا ایک گدھے جیسا ، ایک شیر جیسا ، وہ جب دم ہلاتا ہے تو بجلی ظاہر ہوتی ہے ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گرج کڑک کو سن کر یہ دعا پڑھتے « اللہُمَّ لَا تَقْتُلنَا بِغَضَبِک وَلَا تُہْلِکنَا بِعَذَابِک وَعَافِنَا قَبْل ذَلِکَ» } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3450،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اور روایت میں یہ دعا ہے «سُبْحَان مَنْ یُسَبِّح الرَّعْد بِحَمْدِہِ» ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ گرج سن کر پڑھتے «سُبْحَان مَنْ سَبَّحْت لَہُ» ابن ابی زکریا فرماتے ہیں جو شخص گرج کڑک سن کر کہے دعا «سُبْحَان اللَّہ وَبِحَمْدِہِ» اس پر بجلی نہیں گرے گی ۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ گرج کڑک کی آواز سن کر باتیں چھوڑ دیتے اور فرماتے «سُبْحَان الَّذِی یُسَبِّح الرَّعْد بِحَمْدِہِ وَالْمَلَائِکَۃ مِنْ خِیفَتہ» اور فرماتے کہ اس آیت میں اور اس آواز میں زمین والوں کے لیے بہت تنزیر و عبرت ہے ۔ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { تمہارا رب العزت فرماتا ہے ’ اگر میرے بندے میری پوری اطاعت کرتے تو راتوں کو بارشیں برساتا اور دن کو سورج چڑھاتا اور انہیں گرج کی آواز تک نہ سناتا ‘ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:359/2:ضعیف) طبرانی میں ہے { آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { گرج سن کر اللہ کا ذکر کرو ۔ کیونکہ ذکر کرنے والوں پر کڑا کا نہیں گرتا } } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:11371:ضعیف) وہ بجلی بھیجتا ہے جس پر چاہے اس پر گراتا ہے ۔ اسی لیے آخر زمانے میں بکثرت بجلیاں گریں گی ۔ مسند کی حدیث میں ہے کہ { قیامت کے قریب بجلی بکثرت گرے گی یہاں تک کہ ایک شخص اپنی قوم سے آ کر پوچھے گا کہ صبح کس پر بجلی گری ؟ وہ کہیں گے فلاں فلاں پر } ۔ ۱؎ (مسند احمد:64/3:ضعیف) ابو یعلیٰ راوی ہیں { نبی کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ایک مغرور سردار کے بلانے کو بھیجا اس نے کہا کون رسول اللہ [ صلی اللہ علیہ وسلم ] ؟ اللہ سونے کا ہے یا چاندی کا ؟ یا پیتل کا ؟ قاصد واپس آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذکر کیا کہ دیکھئیے میں نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہی کہا تھا کہ وہ متکبر ، مغرور شخص ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے نہ بلوائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { دوبارہ جاؤ اور اس سے یہی کہو } ، اس نے جا کر پھر بلایا لیکن اس ملعون نے یہی جواب اس مرتبہ بھی دیا ۔ قاصد نے واپس آ کر پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ بھیجا اب کی مرتبہ بھی اس نے پیغام سن کر وہی جواب دینا شروع کیا کہ ایک بادل اس کے سر پر آگیا کڑکا اور اس میں سے بجلی گری اور اس کے سر سے کھوپڑی اڑا لی گئی ۔ اس کے بعد یہ آیت اتری } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:125/13:حسن) ایک روایت میں ہے کہ { ایک یہودی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ تانبے کا ہے یا موتی کا یا یاقوت کا ابھی اس کا سوال پورا نہ ہوا تھا جو بجلی گری اور وہ تباہ ہو گیا اور یہ آیت اتری } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:20266/16:مرسل) قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں مذکور ہے کہ { ایک شخص نے قرآن کو جھٹلایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے انکار کیا اسی وقت آسمان سے بجلی گری اور وہ ہلاک ہو گیا اور یہ آیت اتری } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:20271:حسن) اس آیت کے شان نزول میں عامر بن طفیل اور ازبد بن ربیعہ کا قصہ بھی بیان ہوتا ہے ، یہ دونوں سرداران عرب مدینے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیں گے لیکن اس شرط پر کہ ہمیں آدھوں آدھ کا شریک کرلیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے مایوس کر دیا تو عامر ملعون نے کہا واللہ میں سارے عرب کے میدان کو لشکروں سے بھر دوں گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تو جھوٹا ہے ، اللہ تجھے یہ وقت ہی نہیں دے گا } ۔ پھر یہ دونوں مدینے میں ٹھہرے رہے کہ موقعہ پا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غفلت میں قتل کر دیں چنانچہ ایک دن انہیں موقع مل گیا ایک نے تو آپ کو سامنے سے باتوں میں لگا لیا دوسرا تلوار تو لے پیچھے سے آ گیا لیکن اس حافظ حقیقی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی شرارت سے بچا لیا ۔ اب یہاں سے نامراد ہو کر چلے اور اپنے جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لیے عرب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ابھارنے لگے اسی حال میں اربد پر آسمان سے بجلی گری اور اس کا کام تو تمام ہو گیا عامر طاعون کی گلٹی سے پکڑا گیا اور اسی میں بلک بلک کر جان دی اور اسی جیسوں کے بارے میں یہ آیت اتری کہ اللہ تعالیٰ جس پر چاہے بجلی گراتا ہے ۔ اربد کے بھائی لیبد نے اپنے بھائی کے اس واقعہ کو اشعار میں خوب بیان کیا ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ عامر نے کہا کہ اگر میں مسلمان ہو جاؤں تو مجھے کیا ملے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جو سب مسلمانوں کا حال وہی تیرا حال } ۔ اس نے کہا پھر تو میں مسلمان نہیں ہوتا ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امر کا والی میں بنوں تو میں دین قبول کرتا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یہ امر خلافت نہ تیرے لیے ہے نہ تیری قوم کے لیے ہاں ہمارا لشکر تیری مدد پر ہوگا } ۔ اس نے کہا اس کی مجھے ضرورت نہیں اب بھی نجدی لشکر میری پشت پناہی پر ہے مجھے تو کچے پکے کا مالک کر دیں تو میں دین اسلام قبول کرلوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { نہیں } ۔ یہ دونوں آپ کے پاس سے چلے گئے ۔ عامر کہنے لگا واللہ میں مدینے کو چاروں طرف لشکروں سے محصور کرلوں گا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ تیرا یہ ارادہ پورا نہیں ہونے دے گا } ۔ اب ان دونوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ایک تو صلی اللہ علیہ وسلم کو باتوں میں لگائے دوسرا تلوار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تمام کردے ۔ پھر ان میں سے لڑے گا کون ؟ زیادہ سے زیادہ دیت دے کر پیچھا چھٹ جائے گا ۔ اب یہ دونوں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ۔ عامر نے کہا ذرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر یہاں آئیے ۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے ، اس کے ساتھ چلے ، ایک دیوار تلے وہ باتیں کرنے لگا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پشت کی جانب پڑی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حالت دیکھی اور وہاں سے لوٹ کر چلے آئے ۔ اب یہ دونوں مدینے سے چلے حرہ راقم میں آ کر ٹھرے لیکن سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر رضی اللہ عنہم وہاں پہنچے اور انہیں وہاں سے نکالا ۔ راقم میں پہنچے ہی تھے جو اربد پر بجلی گری اس کا تو وہیں ڈھیر ہو گیا ۔ عامر یہاں سے بھاگ چلا لیکن دریح میں پہنچا تھا جو اسے طاعون کی گلٹی نکلی ۔ بنو سلول قبیلے کی ایک عورت کے ہاں یہ ٹھہرا ۔ وہ کبھی کبھی اپنی گردن کی گلٹی کو دباتا اور تعجب سے کہتا یہ تو ایسی ہے جیسے اونٹ کی گلٹی ہوتی ہے ، افسوس میں سلولیہ عورت کے گھر پر مروں گا ۔ کیا اچھا ہوتا کہ میں اپنے گھر ہوتا ۔ آخر اس سے نہ رہا گیا ، گھوڑا منگوایا ، سوار ہوا اور چل دیا لیکن راستے ہی میں ہلاک ہو گیا ۔ پس ان کے بارے میں یہ آیتیں « اللہُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ کُلٰ أُنثَیٰ وَمَا تَغِیضُ الْأَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ وَکُلٰ شَیْءٍ عِندَہُ بِمِقْدَارٍ عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ الْکَبِیرُ الْمُتَعَالِ سَوَاءٌ مِّنکُم مَّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَن جَہَرَ بِہِ وَمَنْ ہُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّیْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّہَارِ لَہُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ یَحْفَظُونَہُ مِنْ أَمْرِ اللہِ إِنَّ اللہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّیٰ یُغَیِّرُوا مَا بِأَنفُسِہِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللہُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَہُ وَمَا لَہُم مِّن دُونِہِ مِن وَالٍ» ۱؎ (13-الرعد:8-11) نازل ہوئیں ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا ذکر بھی ہے پھر اربد پر بجلی گرنے کا ذکر ہے ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:10760:ضعیف) اور فرمایا ہے کہ ’ یہ اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں ۔ اس کی عظمت وتوحید کو نہیں مانتے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ اپنے مخالفوں اور منکروں کو سخت سزا اور ناقابل برداشت عذاب کرنے والا ہے ‘ ۔ پس یہ آیت مثل آیت «وَمَکَرُوا مَکْرًا وَمَکَرْنَا مَکْرًا وَہُمْ لَا یَشْعُرُونَ فَانظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ مَکْرِہِمْ أَنَّا دَمَّرْنَاہُمْ وَقَوْمَہُمْ أَجْمَعِینَ» ۱؎ (27-النمل:51،50) کے ہے یعنی ’ انہوں نے مکر کیا اور ہم نے بھی اس طرح کہ انہیں معلوم نہ ہو سکا ۔ اب تو خود دیکھ لے کہ ان کے مکر کا انجام کیا ہوا ؟ ہم نے انہیں اور ان کی قوم کو غارت کر دیا ۔ اللہ سخت پکڑ کرنے والا ہے ۔ بہت قوی ہے ، پوری قوت وطاقت والا ہے ‘ ۔