رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ
(پھر یوسف نے دعا کی) پروردگار ! تو نے مجھے حکومت عطا فرمائی اور باتوں کا مطلب اور نتیجہ نکالنا تعلیم فرمایا اے آسمان و زمین کے بنانے والے تو ہی میرا کارساز ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، تو (اپنے فضل و کرم سے) ایسا کیجیو کہ دنیا سے جاؤں تو تیری فرماں برداری کی حالت میں جاؤں، اور ان لوگوں میں داخل ہوجاؤں جو تیرے نیک بندے ہیں۔
. نبوت مل چکی ، بادشاہت عطا ہو گئی ، دکھ کٹ گئے ، ماں باپ اور بھائی سب سے ملاقات ہو گئی تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہے کہ جیسے یہ دنیوں نعمتیں تو نے مجھ پر پوری کی ہیں ، ان نعمتوں کو آخرت میں پوری فرما ، جب بھی موت آئے تو اسلام پر اور تیری فرمانبرداری پر آئے اور میں نیک لوگوں میں ملا دیا جاؤں اور نبیوں اور رسولوں میں «صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین» بہت ممکن ہے کہ یوسف علیہ السلام کی یہ دعا بوقت وفات ہو ۔ جیسے کہ بخاری و مسلم میں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے کہ انتقال کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی اٹھائی اور یہ دعا کی کہ اے اللہ رفیق اعلی میں ملا دے ۔ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی دعا کی ۔ (صحیح بخاری:4438) ہاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یوسف علیہ السلام کی اس دعا کا مقصود یہ ہے کہ جب بھی وفات آئے اسلام پر آئے اور نیکوں میں مل جاؤں ۔ یہ نہیں کہ اسی وقت آپ نے یہ دعا اپنی موت کے لیے کی ہو ۔ اس کی بالکل وہی مثال ہے جو کوئی کسی کو دعا دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اللہ تجھے اسلام پر موت دے ۔ اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ ابھی ہی تجھے موت آ جائے ۔ یا جیسے ہم مانگتے ہیں کہ اللہ ہمیں تیرے دین پر ہی موت آئے یا ہماری یہی دعا کہ اللہ مجھے اسلام پر مار اور نیک کاروں میں ملا ۔ اور اگر یہی مراد ہو کہ واقعی آپ نے اسی وقت موت مانگی تو ممکن ہے کہ یہ بات اس شریعت میں جائز ہو ۔ چنانچہ قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ جب آپ علیہ السلام کے تمام کام بن گئے ، آنکھیں ٹھنڈی ہو گئیں ، ملک ، مال ، عزت ، آبرو ، خاندان ، برادری ، بادشاہت سب مل گئے تو آپ کو صالحین کی جماعت میں پہنچنے کا اشتیاق پیدا ہوا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہی سب سے پہلے اس دعا کے مانگنے والے ہیں ، ممکن ہے اس سے مراد سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ ہو کہ اس دعا کو سب سے پہلے کرنے والے یعنی خاتمہ اسلام پر ہونے کی دعا کے سب سے پہلے مانگنے والے آپ علیہ السلام ہی تھے ۔ جیسے کہ یہ دعا کو سب سے پہلے کرنے والے یعنی خاتمہ اسلام پر ہونے کی دعا کے سب سے پہلے مانگنے والے آپ ہی تھے ۔ جیسے کہ یہ دعا «رَّبِّ اغْفِرْ لِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَن دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا» ( 71-نوح : 28 ) سب سے پہلے نوح علیہ السلام نے مانگی تھی ۔ باوجود اس کے بھی اگر یہی کہا جائے کہ یوسف علیہ السلام نے موت کی ہی دعا کی تھی تو ہم کہتے ہیں ہو سکتا ہے کہ ان کے دین میں جائز ہو ۔ ہمارے ہاں تو سخت ممنوع ہے ۔ مسند میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم میں سے کوئی کسی سختی اور ضرر سے گھبرا کر موت کی آرزو نہ کرے اگر اسے ایسی ہی تمنا کرنی ضروری ہے تو یوں کہے اے اللہ جب تک میری حیات تیرے علم میں میرے لیے بہتر ہے ، مجھے زندہ رکھ اور جب تیرے علم میں میری موت میرے لیے بہتر ہو ، مجھے موت دیدے ۔ (مسند احمد:103/3:صحیح) بخاری مسلم کی اسی حدیث میں ہے کہ تم میں سے کوئی کسی سختی کے نازل ہونے کی وجہ سے موت کی تمنا ہرگز نہ کرے اگر وہ نیک ہے تو اس کی زندگی اس کی نیکیاں بڑھائے گی اور اگر وہ بد ہے تو بہت ممکن ہے کہ زندگی میں کسی وقت توبہ کی توفیق ہو جائے بلکہ یوں کہے اے اللہ جب تک میرے لیے حیات بہتر ہے تو مجھے زندہ رکھ ۔ (صحیح بخاری:6351) مسند احمد میں ہے ہم ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں وعظ و نصیحت کی اور ہمارے دل گرما دئے ۔ اس وقت ہم میں سب سے زیادہ رونے والے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے ، روتے ہی روتے ان کی زبان سے نکل گیا کہ کاش کہ میں مر جاتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سعد رضی اللہ عنہ میرے سامنے موت کی تمنا کرتے ہو ؟ تین مرتبہ یہی الفاظ دہرائے ۔ پھر فرمایا اے سعد اگر تو جنت کے لیے پیدا کیا گیا ہے تو جس قدر عمر بڑھے گی اور نیکیاں زیادہ ہوں گی ، تیرے حق میں بہتر ہے ۔ (مسند احمد:267/5:ضعیف) مسند میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم میں سے کوئی ہرگز ہرگز موت کی تمنا نہ کرے نہ اس کی دعا کرے اس سے پہلے کہ وہ آئے ۔ ہاں اگر کوئی ایسا ہو کہ اسے اپنے اعمال کا وثوق اور ان پر یقین ہو ۔ سنو تم میں سے جو مرتا ہے ، اس کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں ۔ مومن کے اعمال اس کی نیکیاں ہی بڑھاتے ہیں ۔ (مسند احمد:350/2:صحیح بالشواھد) یہ یاد رہے کہ یہ حکم اس مصیبت میں ہے جو دنیوی ہو اور اسی کی ذات کے متعلق ہو ۔ لیکن اگر فتنہ مذہبی ہو ، مصیبت دینی ہو ، تو موت کا سوال جائز ہے ۔ جیسے کہ فرعون کے جادو گروں نے اس وقت دعا کی تھی جب کہ فرعون انہیں قتل کی دھمکیاں دے رہا تھا ۔ کہا تھا کہ «رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِینَ» ( 7-الاعراف : 126 ) اللہ ہم کو صبر عطا کر اور ہمیں اسلام کی حالت میں موت دے ۔ اسی طرح مریم علیہا السلام جب درد زہ سے گھبرا کر کھجور کے تنے تلے گئیں تو بےساختہ منہ سے نکل گیا کہ «یَا لَیْتَنِی مِتٰ قَبْلَ ہٰذَا وَکُنتُ نَسْیًا مَّنسِیًّا» ( 19-مریم : 23 ) کاش کہ میں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی اور آج تو لوگوں کی زبان و دل سے بھلا دی گئی ہوتی ۔ یہ آپ نے اس وقت فرمایا جب معلوم ہوا کہ لوگ انہیں زنا کی تہمت لگا رہے ہیں ، اس لیے کہ آپ خاوند والی نہ تھیں اور حمل ٹھہر گیا تھا ۔ پھر بچہ پیدا ہوا تھا اور دنیا نے شور مچایا تھا کہ «فَأَتَتْ بِہِ قَوْمَہَا تَحْمِلُہُ قَالُوا یَا مَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا یَا أُخْتَ ہَارُونَ مَا کَانَ أَبُوکِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا کَانَتْ أُمٰکِ بَغِیًّا» ( 19-مریم : 27 ، 28 ) مریم بڑی بدعورت ہے ، اے ہارون کی بہن نہ تو تیرا باپ ہی بد اطوار آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی بدکار تھی ۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کی مخلصی کر دی اور اپنے بندے عیسیٰ علیہ السلام کو گہوارے میں زبان دی اور مخلوق کو زبردست معجزہ اور ظاہر نشان دکھا دیا (صلوات اللہ وسلامہ علیہا) ایک حدیث میں ایک لمبی دعا کا ذکر ہے جس میں یہ جملہ بھی ہے کہ اللہ جب تو کسی قوم کے ساتھ فتنہ کا ارادہ کرے تو مجھے اس فتنے میں مبتلا کرنے سے پہلے ہی دنیا سے اٹھا لے ۔ (سنن ترمذی:3235 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دو چیزوں کو انسان اپنے حق میں بری جانتا ہے ؛ موت کو بری جانتا ہے اور موت مومن کے لیے فتنے سے بہتر ہے ۔ مال کی کمی کو انسان اپنے لیے برائی خیال کرتا ہے حالانکہ مال کی کمی حساب کی کمی ہے ۔ (مسند احمد:427/5:صحیح) الغرض دینی فتنوں کے وقت طلب موت جائز ہے ۔ چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے آخری زمانے میں جب دیکھا کہ لوگوں کی شرارتیں کسی طرح ختم نہیں ہوتیں اور کسی طرح اتفاق نصیب نہیں ہوتا تو دعا کی کہ الہٰ العالمین مجھے اب تو اپنی طرف قبض کر لے ۔ یہ لوگ مجھ سے اور میں ان سے تنگ آ چکا ہوں ۔ امام بخاری رحمہ اللہ پر بھی جب فتنوں کی زیادتی ہوئی اور دین کا سنبھالنا مشکل ہو پڑا اور امیر خراسان کے ساتھ بڑے معرکے پیش آئے تو آپ رحمہ اللہ نے جناب باری سے دعا کی کہ اللہ اب مجھے اپنے پاس بلا لے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ فتنوں کے زمانوں میں انسان قبر کو دیکھ کر کہے گا کاش کہ میں اس جگہ ہوتا ۔ (صحیح بخاری:7115) کیونکہ فتنوں بلاؤں زلزلوں اور سختیوں نے ہر ایک مفتون کو فتنے میں ڈال رکھا ہو گا ۔ ابن جریر میں ہے کہ جب یعقوب علیہ السلام نے اپنے ان بیٹوں کے لیے جن سے بہت سے قصور سرزد ہو چکے تھے ۔ استغفار کیا تو اللہ نے ان کا استغفار قبول کیا اور انہیں بخش دیا ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سارا خاندان مصر میں جمع ہو گیا تو برادران یوسف علیہ السلام نے ایک روز آپس میں کہا کہ ہم نے ابا جان کو جتنا ستایا ہے ظاہر ہے ہم نے بھائی یوسف علیہ السلام پر جو ظلم توڑے ہیں ، ظاہر ہیں ۔ اب گویہ دونوں بزرگ ہمیں کچھ نہ کہیں اور ہماری خطا سے درگزر فرما جائیں ۔ لیکن کچھ خیال بھی ہے کہ اللہ کے ہاں ہماری کیسی درگت بنے گی ؟ آخر یہ ٹھہری کہ آؤ ابا جی کے پاس چلیں اور ان سے التجائیں کریں ۔ چنانچہ سب مل کر آپ کے پاس آئے ۔ اس وقت یوسف علیہ السلام بھی باپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ، آتے ہی انہوں نے بیک زبان کہا کہ حضور ہم آپ کے پاس ایک ایسے اہم امر کے لیے آج آئے ہیں کہ اس سے پہلے کبھی ایسے اہم کام کے لیے آپ علیہ السلام کے پاس نہیں آئے تھے ، ابا جی اور اے بھائی صاحب ہم اس وقت ایسی مصیبت میں مبتلا ہیں اور ہمارے دل اس قدر کپکپا رہے ہیں کہ آج سے پہلے ہماری ایسی حالت کبھی نہیں ہوئی ۔ الغرض کچھ اس طرح نرمی اور لجاجت کی کہ دونوں بزرگوں کا دل بھر آیا ظاہر ہے کہ انبیاء کے دلوں میں تمام مخلوق سے زیادہ رحم اور نرمی ہوتی ہے ۔ پوچھا کہ آخر تم کیا کہتے ہو اور ایسی تم پر کیا بپتا پڑی ہے ؟ سب نے کہا آپ کو خوب معلوم ہے کہ ہم نے آپ کو کس قدر ستایا ، ہم نے بھائی پر کیسے ظلم وستم ڈھائے ؟ دونوں نے کہا ہاں معلوم ہے پھر ؟ کہا کیا یہ درست ہے کہ آپ دونوں نے ہماری تقصیر معاف فرما دی ؟ ہاں بالکل درست ہے ۔ ہم دل سے معاف کر چکے ۔ تب لڑکوں نے کہا ، آپ کا معاف کر دینا بھی بےسود ہے جب تک کہ اللہ تعالیٰ ہمیں معاف نہ کر دے ۔ پوچھا اچھا پھر مجھ سے کیا چاہتے ہو ؟ جواب دیا یہی کہ آپ ہمارے لیے اللہ سے بخشش طلب فرمائیں ، یہاں تک کہ بذریعہ وحی آپ کو معلوم ہو جائے کہ اللہ نے ہمیں بخش دیا تو البتہ ہماری آنکھوں میں نور اور دل میں سرور آ سکتا ہے ورنہ ہم تو دونوں جہاں سے گئے گزرے ۔ اس وقت آپ کھڑے ہو گئے ، قبلہ کی طرف متوجہ ہوئے یوسف علیہ السلام آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے ، بڑے ہی خشوع خضوع سے جناب باری میں گڑگڑا گڑا گڑا کر دعائیں شروع کیں ۔ یعقوب علیہ السلام دعا کرتے تھے اور یوسف علیہ السلام آمین کہتے تھے ، کہتے ہیں کہ بیس سال تک دعا مقبول نہ ہوئی ۔ آخر بیس سال تک جب کہ بھائیوں کا خون اللہ کے خوف سے خشک ہونے لگا ، تب وحی آئی اور قبولیت دعا اور بخشش فرزندان کی بشارت سنائی گئی بلکہ یہ بھی فرمایا گیا کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ تیرے بعد نبوت بھی انہیں ملے گی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:309/7) یہ قول سیدنا انس رضی اللہ عنہما کا ہے اور اس میں دو راوی ضعیف ہیں یزید رقاشی ۔ صالح مری ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعقوب علیہ السلام نے اپنی موت کے وقت یوسف علیہ السلام کو وصیت کی کہ مجھے ابراہیم واسحاق علیہم السلام کی جگہ میں دفن کرنا ۔ چنانچہ بعد از انتقال آپ علیہ السلام نے یہ وصیت پوری کی اور ملک شام کی زمین میں آپ کے باپ دادا کے پاس دفن کیا ۔ علیہم الصلوات والسلام