سورة یوسف - آیت 83

قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ عَسَى اللَّهُ أَن يَأْتِيَنِي بِهِمْ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(چنانچہ بھائیوں نے ایسا ہی کیا اور کنعان آکر یہ ساری باتیں باپ سے کہہ دیں) اس نے (سن کر) کہا، نہیں یہ تو ایک بات ہے جو تمہارے جی نے تمہیں سججھا دی ہے (یعنی بنیامین کا چوری کرنا) خیر ! میرے لیے صبر کے سوا چارہ نہیں، ایسا صبر کہ خوبی کا صبر ہو، اللہ (کے فضل) سے کچھ بعید نہیں ہے کہ وہ (ایک دن) ان سب کو میرے پاس جمع کردے، وہی ہے جو (سب کچھ) جاننے والا (اور اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

. بھائیوں کی زبانی یہ خبر سن کر یعقوب علیہ السلام نے وہی فرمایا جو اس سے پہلے اس وقت فرمایا تھا جب انہوں نے پیراہن یوسف خون آلود پیش کر کے اپنی گھڑی ہوئی کہانی سنائی تھی کہ صبر ہی بہتر ہے ۔ آپ سمجھے کہ اسی کی طرح یہ بات بھی ان کی اپنی بنائی ہوئی ہے بیٹوں سے یہ فرما کر اب اپنی امید ظاہر کی جو اللہ سے تھی کہ بہت ممکن ہے کہ بہت جلد اللہ تعالیٰ میرے تینوں بچوں کو مجھ سے ملا دے یعنی یوسف علیہ السلام کو بنیامین کو اور آپ کے بڑے صاحبزادے روبیل کو جو مصر میں ٹھر گئے تھے اس امید پر کہ اگر موقعہ لگ جائے تو بنیامین کو خفیہ طور نکال لے جائیں یا ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ خود حکم دے اور یہ اس کی رضا مندی کے ساتھ واپس لوٹیں ۔ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ علیم ہے میری حالت کو خوب جان رہا ہے ۔ حکیم ہے اس کی قضاء وقدر اور اس کا کوئی کام الحکمت سے خالی نہیں ہوتا ۔ اب آپ کے اس نئے رنج نے پرانا رنج بھی تازہ کر دیا اور یوسف علیہ السلام کی یاد دل میں چٹکیاں لینے لگی ۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں «إِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ» ( 2-البقرہ : 156 ) الخ ، پڑھنے کی ہدایات صرف اسی امت کو کی گئی ہے اس نعمت سے اگلی امتیں مع اپنے نبیوں کے محروم تھیں ۔ دیکھئیے یعقوب علیہ السلام بھی ایسے موقعہ پر «یَا أَسَفَیٰ عَلَیٰ یُوسُفَ» کہتے ہیں ۔ آپ کی آنکھیں جاتی رہی تھیں ۔ غم نے آپ علیہ السلام کو نابینا کر دیا تھا اور زبان خاموش تھی ۔ مخلوق میں سے کسی شکایت وشکوہ نہیں کرتے تھے ۔ غمگین اور اندوہ گین رہا کرتے تھے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ داؤد علیہ السلام نے جناب باری میں عرض کی کہ لوگ تجھ سے یہ کہہ کر دعا مانگتے ہیں کہ اے ابراہیمعلیہ السلام اور اسحاق علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام کے رب ، تو تو ایسا کر کہ ان تین ناموں میں چوتھا نام میرا بھی شامل ہو جائے ۔ جواب ملا کہ اے داؤد ابراہیم علیہ السلام آگ میں ڈالے گئے اور صبر کیا ۔ تیری آزائش ابھی ایسی نہیں ہوئی ۔ اسحاق علیہ السلام نے خود اپنی قربانی منظور کر لی اور اپنا گلا کٹوانے بیٹھ گئے ۔ تجھ پر یہ بات بھی نہیں آئی ۔ یعقوب علیہ السلام سے میں نے ان کے لخت جگر کو الگ کر دیا اس نے بھی صبر کیا تیرے ساتھ یہ واقعہ بھی نہیں ہوا ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:11882/7:ضعیف جدا) یہ روایت مرسل ہے اور اس میں نکارت بھی ہے اس میں بیان ہوا ہے کہ ذبیح اللہ اسحاق علیہ السلام تھے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اسماعیل علیہ السلام تھے ۔ اس روایت کے راوی علی بن زید بن جدعان اکثر منکر اور غریب روایتیں بیان کر دیا کرتے ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ بہت ممکن ہے کہ احنف بن قیس رحمہ اللہ نے یہ روایت بنی اسرائیل سے لی ہو ، جیسے کعب وہب وغیرہ ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ بنی اسرائیل کی ورایتوں میں یہ بھی ہے کہ یعقوب علیہ السلام نے یوسف کو اس موقعہ پر جب کہ بنیامین قید میں تھے ۔ ایک خط لکھا تھا جس میں انہیں رحم دلانے کے لیے لکھا تھا کہ ہم مصیبت زدہ لوگ ہیں ۔ میرے دادا ابراہیم علیہ السلام علیہ السلام آگ میں ڈالے گئے ۔ میرے والد اسحاق علیہ السلام ذبح کے ساتھ آزمائے گئے ۔ میں خود فراق یوسف علیہ السلام میں مبتلا ہوں ۔ لیکن یہ روایت بھی سندا ثابت نہیں ۔