قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ إِنَّ لَهُ أَبًا شَيْخًا كَبِيرًا فَخُذْ أَحَدَنَا مَكَانَهُ ۖ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ
انہوں نے کہا اے عزیز ! اس کا باپ بہت بوڑھا آدمی ہے، (اور اس سے محبت رکھتا ہے) پس اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجیے (مگر اسے نہ روکیے) ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو احسان کرنے والے ہیں۔
. جب بنیامین کے پاس سے شاہی مال برآمد ہوا اور ان کے اپنے اقرار کے مطابق وہ شاہی قیدی ٹھہر چکے تو اب انہیں رنج ہونے لگا ۔ عزیز مصر کو پرچانے لگے اور اسے رحم دلانے کے لیے کہا کہ ان کے والد ان کے بڑے ہی دلدادہ ہیں ۔ ضعیف اور بوڑھے شخض ہیں ۔ ان کا ایک سگا بھائی پہلے ہی گم ہو چکا ہے ۔ جس کے صدمے سے وہ پہلے ہی سے چور ہیں اب جو یہ سنیں گے تو ڈر ہے کہ زندہ نہ بچ سکیں ۔ آپ ہم میں سے کسی کو ان کے قائم مقام اپنے پاس رکھ لیں اور اسے چھوڑ دیں آپ بڑے محسن ہیں ، اتنی عرض ہماری قبول فرما لیں ۔ یوسف علیہ السلام نے جواب دیا کہ بھلا یہ سنگدلی اور ظلم کیسے ہو سکتا ہے کہ کرے کوئی بھرے کوئی ۔ چور کو روکا جائے گا نہ کہ شاہ کو نا کردہ گناہ کو سزا دینا اور گنہگار کو چھوڑ دینا یہ تو صریح ناانصافی اور بدسلوکی ہے ۔