فَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ
پھر جب یوسف نے ان لوگوں کا سامان ان کی روانگی کے لیے مہیا کیا تو اپنے بھائی (بنیامین کی بوری میں اپنا کٹورا رکھ دیا) (تاکہ بطور نشانی کے اس کے پاس رہے) پھر ایسا ہوا کہ (جب یہ لوگ روانہ ہوئے اور شاہی کارندوں نے پیالہ ڈھونڈا اور نہ پایا تو ان پر شبہ ہوا اور) ایک پکارنے والے نے (ان کے پیچھے) پکارا، اے قافلہ والو ! (ٹھہرو) ہو نہ ہو تم ہی چور ہو۔
. جب آپ اپنے بھائیوں کو حسب عادت ایک ایک اونٹ غلے کا دینے لگے اور ان کا اسباب لدنے لگا تو اپنے چالاک ملازموں سے چپکے سے اشارہ کر دیا کہ چاندی کا شاہی کٹورا بنیامین کے اسباب میں چپکے سے رکھ دیں ۔ بعض نے کہا ہے یہ کٹورا سونے کا تھا ۔ اسی میں پانی پیا جاتا تھا اور اسی سے غلہ بھر کے دیا جاتا تھا بلکہ ویسا ہی پیالہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بھی تھا ۔ پس آپ کے ملازمین نے ہوشیاری سے وہ پیالہ آپ علیہ السلام کے بھائی بنیامین کی خورجی میں رکھ دیا ۔ جب یہ چلنے لگے تو سنا کہ پیچھے سے منادی ندا کرتا آ رہا ہے کہ اے قافلے والو تم چور ہو ۔ ان کے کان کھڑے ، رک گئے ، ادھر متوجہ ہوئے اور پوچھا کہ آپ کی کیا چیز کھو گئی ہے ؟ جواب ملا کہ شاہی پیمانہ جس سے اناج ناپا جاتا تھا ، سنو شاہی اعلان ہے کہ اس کے ڈھونڈ لانے والے کو ایک بوجھ غلہ ملے گا اور میں خود ضامن ہوں ۔