يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا ۖ وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ فَتَأْكُلُ الطَّيْرُ مِن رَّأْسِهِ ۚ قُضِيَ الْأَمْرُ الَّذِي فِيهِ تَسْتَفْتِيَانِ
اے یاران مجلس ! (اب اپنے اپنے خوابوں کا مطلب سن لو) تم میں ایک آدمی (وہ ہے جس نے دیکھا کہ انگور نچوڑ رہا ہے) تو وہ ( قید سے چھوٹ جائے گا اور بدستور سابق) اپنے آقا کو شراب پلائے گا۔ اور دوسرا آدمی (وہ ہے جس نے دیکھا اس کے سر پر روٹی ہے اور پرند روٹی کھار ہے ہیں) تو وہ سولی پر چڑھایا جائے گا اور پرند اس کا سر (نوچ نوچ کر) کھائیں گے، جس بات کے بارے میں تم سوال کرتے ہو وہ فیصل ہوچکی، اور فیصلہ یہی ہے۔
خواب اور اس کی تعبیر اب اللہ کے برگزیدہ پیغمبر ان کے خواب کی تعبیر بتلا رہے ہیں لیکن یہ نہیں فرماتے کہ تیری خواب کی یہ تعبیر ہے اور تیرے خواب کی یہ تعبیر ہے تاکہ ایک رنجیدہ نہ ہو جائے اور موت سے پہلے اس پر موت کا بوجھ نہ پڑ جائے ۔ بلکہ مبہم کر کے فرماتے ہیں تم دو میں سے ایک تو اپنے بادشاہ کا ساقی بن جائے گا یہ دراصل یہ اس کے خواب کی تعبیر ہے جس نے شیرہ انگور تیار کرتے اپنے تئیں دیکھا تھا ۔ اور دوسرے جس نے اپنے سر پر روٹیاں دیکھی تھیں ۔ اس کے خواب کی تعبیر یہ دی کہ اسے سولی دی جائے گی اور پرندے اس کا مغز کھائیں گے ۔ پھر ساتھ ہی فرمایا کہ یہ اب ہو کر ہی رہے گا ۔ اس لیے کہ جب تک خواب کی تعبیر بیان نہ کی جائے وہ معلق رہتا ہے اور جب تعبیر ہو چکی وہ ظاہر ہو جاتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ تعبیر سننے کے بعد ان دونوں نے کہا کہ ہم نے تو دراصل کوئی خواب دیکھا ہی نہیں ۔ آپ نے فرمایا اب تو تمہارے سوال کے مطابق ظاہر ہو کر ہی رہے گا ۔ اس سے ظاہر ہے کہ جو شخص خواہ مخواہ کا خواب گھڑ لے اور پھر اس کی تعبیر بھی دی دے دی جائے تو وہ لازم ہو جاتی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں خواب گویا پرندے کے پاؤں پر ہے جب تک اس کی تعبیر نہ دے دی جائے جب تعبیر دے دی گئی پھر وہ واقع ہو جاتا ہے ۔ (مسند احمد:10/4:صحیح) مسند ابو یعلیٰ میں مرفوعاً مروی ہے کہ خواب کی تعبیر سب سے پہلے جس نے دی اس کے لیے ہے ۔ (ابن ابی شیبۃ،11/7:ضعیف)