وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ ۖ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا أَن رَّأَىٰ بُرْهَانَ رَبِّهِ ۚ كَذَٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ ۚ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ
اور حقیقت یہ ہے کہ عورت یوسف کے پیچھے پڑچکی تھی اور (حالت ایسی ہوگئی تھی کہ بے قابو ہوکر) یوسف بھی اس کی طرف متوجہ ہوجاتا اگر اس کے پروردگار کی دلیل اس کے سامنے نہ آگئی ہوتی۔ (تو دیکھو) اس طرح (ہم نے نفس انسانی کی اس سخت آزمائش میں بھی اسے دلیل حق کے ذریعہ سے ہوشیار رکھا) تاکہ برائی اور بے حیائی کی باتیں اس سے دور رکھیں۔ بلاشبہ وہ ہمارے ان بندوں میں سے تھا جو برگزیدگی کے لیے چن لیے گئے۔
یوسف علیہ السلام کے تقدس کا سبب سلف کی ایک جماعت سے تو اس آیت کے بارے میں وہ مروی ہے جو ابن جریر وغیرہ لائے ہیں اور کہا گیا ہے کہ یوسف علیہ السلام کا قصد اس عورت کے ساتھ صرف نفس کا کھٹکا تھا ۔ بغوی کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عزوجل کا فرمان ہے کہ جب میرا کوئی بندہ نیکی کا ارادہ کرے تو تم اس کی نیکی لکھ لو ۔ اور جب اس نیکی کو کر گزرے تو اس جیسی دس گنی نیکی لکھ لو ۔ اور اگر کسی برائی کا ارادہ کرے اور پھر اسے نہ کرے تو اس کے لیے نیکی لکھ لو ۔ کیونکہ اس نے میری وجہ سے اس برائی کو چھوڑا ہے ۔ اور اگر اس برائی کو ہی کر گزرے تو اس کے برابر اسے لکھ لو ۔ اس حدیث کے الفاظ اور بھی کئی ایک ہیں اصل بخاری ، مسلم میں بھی ہے ۔ (صحیح بخاری:7051) ایک قول ہے کہ یوسف علیہ السلام نے اسے مارنے کا قصد کیا تھا ۔ ایک قول ہے کہ اسے بیوی بنانے کی تمنا کی تھی ۔ ایک قول ہے کہ آپ قصد کرتے اگر اگر دلیل نہ دیکھتے لیکن چونکہ دلیل دیکھ لی قصد نہیں فرمایا ۔ لیکن اس قول میں عربی زبان کی حیثیت سے کلام ہے جسے امام ابن جریر وغیرہ نے بیان فرمایا ہے ۔ یہ تو تھے اقوال قصد یوسف کے متعلق ۔ وہ دلیل جو آپ نے دیکھی اس کے متعلق بھی اقوال ملاحظہ فرمائیے ۔ کہتے ہیں اپنے والد یعقوب علیہ السلام کو دیکھا کہ گویا وہ اپنی انگلی منہ میں ڈالے کھڑے ہیں ۔ اور یوسف علیہ السلام کے سینے پر آپ نے ہاتھ مارا ۔ کہتے ہیں اپنے سردار کی خیالی تصویر سامنے آ گئی ۔ کہتے ہیں آپ کی نظر چھت کی طرف اُٹھ گئی دیکھتے ہیں کہ اس پر یہ آیت لکھی ہوئی ہے «وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَیٰ ۖ إِنَّہُ کَانَ فَاحِشَۃً وَسَاءَ سَبِیلًا» ( 17-الاسراء : 32 ) خبردار زنا کے قریب بھی نہ بھٹکنا وہ بڑی بے حیائی کا اور اللہ کے غضب کا کام ہے اور وہ بڑا ہی برا راستہ ہے ۔ کہتے ہیں تین آیتیں لکھی ہوئی تھیں ایک تو آیت «وَإِنَّ عَلَیْکُمْ لَحَافِظِینَ» ( 82-الانفطار : 10 ) تم پر نگہبان مقرر ہیں ۔ دوسری آیت «وَمَا تَکُونُ فِی شَأْنٍ» ( 10-یونس : 61 ) تم جس حال میں ہو اللہ تمہارے ساتھ ہے ۔ تیسری آیت «أَفَمَنْ ہُوَ قَائِمٌ عَلَیٰ کُلِّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ» ( 13-الرعد : 33 ) اللہ ہر شخص کے ہر عمل پر حاضر ناظر ہے ۔ کہتے ہیں کہ چار آیتیں لکھی پائی تین وہی جو اوپر ہیں اور ایک حرمت زنا کی «وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَیٰ ۖ إِنَّہُ کَانَ فَاحِشَۃً وَسَاءَ سَبِیلًا» ( 17-الاسراء : 32 ) جو اس سے پہلے ہے ۔ کہتے ہیں کہ کوئی آیت دیوار پر ممانعت زنا کے بارے میں لکھی ہوئی پائی ۔ کہتے ہیں ایک نشان تھا جو آپ کے ارادے سے آپ کو روک رہا تھا ۔ ممکن ہے وہ صورت یعقوب علیہ السلام ہو ۔ اور ممکن ہے اپنے خریدنے والے کی صورت ہو ۔ اور ممکن ہے آیت قرآنی ہو کوئی ایسی صاف دلیل نہیں کہ کسی خاص ایک چیز کے فیصلے پر ہم پہنچ سکیں ۔ پس بہت ٹھیک راہ ہمارے لیے یہی ہے کہ اسے یونہی مطلق چھوڑ دیا جائے جیسے کہ اللہ کے فرمان میں بھی اطلاق ہے ( اسی طرح قصد کو بھی ) پھر فرماتا ہے ہم نے جس طرح اس وقت اسے ایک دلیل دکھا کر برائی سے بچا لیا ، اسی طرح اس کے اور کاموں میں بھی ہم اس کی مدد کرتے رہے اور اسے برائیوں اور بے حیائیوں سے محفوظ رکھتے رہے ۔ وہ تھا بھی ہمارا برگزیدہ پسندیدہ بہترین اور مخلص بندہ ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر درود و سلام نازل ہوں ۔