وَيَا قَوْمِ اعْمَلُوا عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ ۖ سَوْفَ تَعْلَمُونَ مَن يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَمَنْ هُوَ كَاذِبٌ ۖ وَارْتَقِبُوا إِنِّي مَعَكُمْ رَقِيبٌ
اے میری قوم کے لوگو ! تم اپنی جگہ کام کیے جاؤ، میں بھی (اپنی جگہ) سرگرم عمل ہوں، بہت جلد معلوم کرلو گے کہ کس پر عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کرے گا اور کون فی الحقیقت جھوٹا ہے، انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔
مدین والوں پر عذاب الٰہی جب اللہ کے نبی علیہ السلام اپنی قوم کے ایمان لانے سے مایوس ہو گئے تو تھک کر فرمایا ” اچھا تم اپنے طریقے پر چلے جاؤ میں اپنے طریقے پر قائم ہوں ۔ تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ رسوا کرنے والے عذاب کن پر نازل ہوتے ہیں اور اللہ کے نزدیک جھوٹا کون ہے ؟ تم منتظر رہو میں بھی انتظار میں ہوں “ ۔ آخر ان پر بھی عذاب الٰہی اترا اس وقت نبی اللہ اور مومن بچا دیئے گئے ان پر رحمت رب ہوئی اور ظالموں کو تہس نہس کر دیا گیا ۔ وہ جل بجھے ۔ بے حس و حرکت رہ گئے ۔ ایسے کہ گویا کبھی اپنے گھروں میں آباد ہی نہ تھے ۔ اور جیسے کہ ان سے پہلے کے ثمودی تھے اللہ کی لعنت کا باعث بنے ویسے ہی یہ بھی ہو گئے ۔ ثمودی ان کے پڑوسی تھے اور گناہ اور بدامنی میں انہیں جیسے تھے اور یہ دونوں قومیں عرب ہی سے تعلق رکھتی تھیں ۔