قَالُوا يَا صَالِحُ قَدْ كُنتَ فِينَا مَرْجُوًّا قَبْلَ هَٰذَا ۖ أَتَنْهَانَا أَن نَّعْبُدَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا وَإِنَّنَا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ
لوگوں نے کہا اے صالح پہلے تو تو ایک ایسا آدمی تھا کہ ہم سب کی امیدیں تجھ سے وابستہ تھیں پھر کیا تو ہمیں روکتا ہے کہ ان معبودوں کی پوجا نہ کریں جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں؟ (یہ کیسی بات ہے؟) ہمیں تو اس بات میں بڑا ہی شک ہے جس کی طرف تم دعوت دیتے ہو کہ ہمارے دل میں اترتی نہیں۔
باپ دادا کے معبود ہی ہم کو پیارے ہیں صالح علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کی قوم کے درمیان جو بات چیت ہوئی اس کا بیان ہو رہا ہے وہ کہتے ہیں کہ تو یہ بات زبان سے نکال ۔ اس سے پہلے تو ہماری بہت کچھ امیدیں تجھ سے وابستہ تھیں ، لیکن تو نے ان سے سب پر پانی پھیر دیا ۔ ہمیں پرانی روش اور باپ دادا کے طریقے اور پوجا پاٹ سے ہٹانے لگا ۔ ہمیں تو تیری اس نئی رہبری میں بہت بڑا شک شبہ ہے ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ” سنو میں اعلیٰ دلیل پر ہوں ۔ میرے پاس رب کی نشانی ہے ، مجھے اپنی سچائی پر دلی اطمینان ہے میرے پاس اللہ کی رسالت کی رحمت ہے ۔ اب اگر میں تمہیں اس کی دعوت نہ دوں اور اللہ کی نافرمانی کروں اور اس کی عبادت کی طرف تمہیں نہ بلاؤں تو کون ہے جو میری مدد کر سکے اور اللہ کے عذاب سے مجھے بچا سکے ؟ میرا ایمان ہے کہ مخلوق میرے کام نہیں آ سکتی تم میرے لیے محض بےسود ہو ۔ سوائے میرے نقصان کے تم مجھے اور کیا دے سکتے ہو “ ۔