وَقَالَ ارْكَبُوا فِيهَا بِسْمِ اللَّهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا ۚ إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور (نوح نے ساتھیوں سے) کہا کشتی میں سوار ہوجاؤ اللہ کے نام سے اسے چلنا ہے ورا اللہ ہی کے نام سے ٹھہرنا، بلاشبہ میرا پروردگار بخشنے والا رحمت والا ہے۔
کشتی نوح پر کون کون سوار ہوا؟ نوح علیہ السلام جنہیں اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے ان سے فرمایا کہ ” آؤ اس میں سوار ہو جاؤ اس کا پانی پر چلنا اللہ کے نام کی برکت سے ہے اور اسی طرح اس کا آخری ٹھہراؤ بھی اسی پاک نام سے ہے “ ۔ أبو رجاء العطاردی کی قرآت میں «بِسْمِ اللہِ مُجْرِیہَا وَمُرْسِیہَا» بھی ہے ۔ یہی اللہ کا آپ علیہ السلام کو حکم تھا کہ ’ جب تم اور تمہارے ساتھی ٹھیک طرح بیٹھ جاؤ تو کہنا «الْـحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ نَجّٰینَا مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ» ۱؎ (23-المؤمنون:28) اور یہ بھی دعا کرنا کہ «اَنْزِلْنِیْ مُنْزَلًا مٰبٰرَکًا وَّاَنْتَ خَیْرُ الْمُنْزِلِیْنَ» ‘ ۱؎ (23-المؤمنون:29) اس لیے مستحب ہے کہ تمام کاموں کے شروع میں «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» پڑھ لی جائے خواہ کشتی پر سوار ہونا ہو ، خواہ جانور پر سوار ہونا ہو ۔ جیسے فرمان باری ہے کہ «وَالَّذِی خَلَقَ الْأَزْوَاجَ کُلَّہَا وَجَعَلَ لَکُم مِّنَ الْفُلْکِ وَالْأَنْعَامِ مَا تَرْکَبُونَ لِتَسْتَوُوا عَلَیٰ ظُہُورِہِ ثُمَّ تَذْکُرُوا نِعْمَۃَ رَبِّکُمْ إِذَا اسْتَوَیْتُمْ عَلَیْہِ وَتَقُولُوا سُبْحَانَ الَّذِی سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَمَا کُنَّا لَہُ مُقْرِنِینَ وَإِنَّا إِلَیٰ رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ» ۱؎ (43-الزخرف:12-14) ’ اسی اللہ نے تمہارے لیے تمام جوڑے پیدا کئے ہیں اور کشتیاں اور چوپائے تمہاری سواری کے لیے پیدا کئے ہیں کہ تم ان کی پیٹھ پر سواری کرو ‘ ، الخ ۔ حدیث میں بھی اس کی تاکید اور رغبت آئی ہے ، سورۃ الزخرف میں اس کا پورا بیان ہو گا ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ طبرانی میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { میری امت کے لیے ڈوبنے سے بچاؤ ان کے اس قول میں ہے سوار ہوتے ہوئے کہہ لیں «بِسْمِ اللہِ الْمُلْکُ» ، «وَمَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہِ وَالْأَرْضُ جَمِیعًا قَبْضَتُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَالسَّماوَاتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِینِہِ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی عَمَّا یُشْرِکُونَ» (الزٰمَرِ : 67) «بِسْمِ اللہِ مَجْرَاہَا وَمُرْسَاہَا إِنَّ رَبِّی لَغَفُورٌ رَّحِیمٌ» ۱؎ (11-ھود:41) } } اس دعا کے آخر میں اللہ کا وصف غفور و رحیم اس لیے لائے کہ کافروں کی سزا کے مقابلے میں مومنون پر رحمت و شفقت کا اظہار ہو ۔ جیسے فرمان ہے «إِنَّ رَبَّکَ لَسَرِیعُ الْعِقَابِ وَإِنَّہُ لَغَفُورٌ رَحِیمٌ» ۱؎ (7-الأعراف:167) ’ تیرا رب جلد سزا کرنے والا اور ساتھ ہی غفور و رحیم بھی ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَإِنَّ رَبَّکَ لَذُو مَغْفِرَۃٍ لِّلنَّاسِ عَلَیٰ ظُلْمِہِمْ وَإِنَّ رَبَّکَ لَشَدِیدُ الْعِقَابِ» ۱؎ (13-الرعد:6) یعنی ’ تیرا پروردگار لوگوں کے گناہوں کو بخشنے والا بھی ہے اور سخت سزا دینے والا بھی ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «إِنَّ رَبَّکَ لَسَرِیعُ الْعِقَابِ وَإِنَّہُ لَغَفُورٌ رَّحِیمٌ» ۱؎ (7-الاعراف:167) ’ بیشک تمہارا پروردگار جلد عذاب کرنے والا ہے اور وہ بخشنے والا مہربان بھی ہے ‘ ، اور بھی بہت سی آیتیں ہیں جن میں رحمت و انتقام کا بیان ملا جلا ہے ۔ پانی روئے زمین پر پھر گیا ہے ، کسی اونچے سے اونچے پہاڑ کی بلندی سے بلند چوٹی بھی دکھائی نہیں دیتی بلکہ پہاڑوں سے اوپر پندرہ ہاتھ اور بقول اسی میل اوپر کو ہو گیا ہے باوجود اس کے کشتی نوح علیہ السلام بحکم الٰہی برابر صحیح طور پر جا رہی ہے ۔ خود اللہ اس کا محافظ ہے اور وہ خاص اس کی عنایت و مہر ہے ۔ جیسے فرمان ہے «إِنَّا لَمَّا طَغَی الْمَاءُ حَمَلْنَاکُمْ فِی الْجَارِیَۃِ لِنَجْعَلَہَا لَکُمْ تَذْکِرَۃً وَتَعِیَہَا أُذُنٌ وَاعِیَۃٌ» (69-الحاقۃ:11 ، 12) یعنی ’ پانی میں طغیانی کے وقت ہم نے آپ تمہیں کشتی میں چڑھا لیا کہ ہم اسے تمہارے لیے نصیحت بنائیں اور یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھ لیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ «وَحَمَلْنَاہُ عَلَیٰ ذَاتِ أَلْوَاحٍ وَدُسُرٍ تَجْرِی بِأَعْیُنِنَا جَزَاءً لِّمَن کَانَ کُفِرَ وَلَقَد تَّرَکْنَاہَا آیَۃً فَہَلْ مِن مٰدَّکِرٍ» ۱؎ (54-القمر:13-15) ’ ہم نے تمہیں اس تختوں والی کشتی پر سوار کرایا اور اپنی حفاظت میں پار اتارا اور کافروں کو ان کے کفر کا انجام دکھا دیا اور اسے ایک نشان بنا دیا کیا اب بھی کوئی ہے جو عبرت حاصل کرے ؟ ‘ اس وقت نوح علیہ السلام نے اپنے صاحبزادے کو بلایا یہ آپ علیہ السلام کے چوتھے لڑکے تھے اس کا نام حام تھا یہ کافر تھا اسے آپ علیہ السلام نے کشتی میں سوار ہونے کے وقت ایمان کی اور اپنے ساتھ بیٹھ جانے کی ہدایت کی تاکہ ڈوبنے سے اور کافروں کے عذاب سے بچ جائے ۔ مگر اس بد نیت نے جواب دیا کہ نہیں مجھے اس کی ضرورت نہیں میں پہاڑ پر چڑھ کر طوفان باراں سے بچ جاؤں گا ۔ ایک اسرائیلی روایت میں ہے کہ اس نے شیشے کی کشتی بنائی تھی «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ قرآن میں تو یہ ہے کہ ’ اس نے یہ سمجھا کہ یہ طوفان پہاڑوں کی چوٹیوں تک نہیں پہنچنے کا میں جب جا پہنچوں گا تو یہ پانی میرا کیا بگاڑے گا ؟ ‘ اس پر نوح علیہ السلام نے جواب دیا کہ ” آج عذاب الٰہی سے کہیں پناہ نہیں وہی بچے گا جس پر اللہ کا رحم ہو “ ۔ یہاں «عَاصِمَ» «مَعْصُومٍ» کے معنی میں ہے جیسے «طَاعِمٌ» «مَطْعُومٍ» کے معنی میں اور «وَکَاسٍ» «مَکْسُوٍ» کے معنی میں آیا ہے ۔ یہ باتیں ہو ہی رہی ہیں جو ایک موج آئی اور پسر نوح علیہ السلام کو لے ڈوبی ۔