حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ ۚ وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِيلٌ
(یہ سب کچھ ہوتا رہا) یہاں تک کہ جب وہ وقت آگیا کہ ہماری (ٹھہرائی ہوئی) بات ظہور میں آئے اور (فطرت کے) تنور نے جوش مارا تو ہم نے (نوح کو) حکم دیا ہر قسم (کے جانوروں) کے دو دو جوڑے کشتی میں لے لو اور اپنے اہل و عیال کو بھی ساتھ لو۔ مگر اہل و عیال میں وہ لوگ داخل نہیں جن کے لیے پہلے بات کہی جاچکی ہے (یعنی کہا جاچکا ہے کہ انہیں غرق ہونا ہے) نیز ان لوگوں کو بھی لے لو جو ایمان لا چکے ہیں، اور نوح کے ساتھ ایمان نہیں لائے تھے مگر بہت تھوڑے آدمی۔
قوم نوح پر عذاب الٰہی کا نزول حسب فرمان ربی «فَفَتَحْنَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ بِمَاءٍ مٰنْہَمِرٍ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُیُونًا فَالْتَقَی الْمَاءُ عَلَیٰ أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ وَحَمَلْنَاہُ عَلَیٰ ذَاتِ أَلْوَاحٍ وَدُسُرٍ تَجْرِی بِأَعْیُنِنَا جَزَاءً لِّمَن کَانَ کُفِرَ» ۱؎ (54-القمر:14-11) ’ آسمان سے موسلا دھار لگاتار بارش برسنے لگی اور زمین سے بھی پانی ابلنے لگا اور ساری زمین پانی سے بھر گئی اور جہاں تک منظور رب تھا پانی بھر گیا اور نوح علیہ السلام کو رب العالمین نے اپنی نگاہوں کے سامنے چلنے والی کشتی پر سوار کر دیا ۔ اور کافروں کو ان کے کیفر کردار کو پہنچا دیا ‘ ۔ تنور کے ابلنے سے بقول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ یہ مطلب ہے کہ ” روئے زمین سے چشمے پھوٹ پڑے یہاں تک کہ آگ کی جگہ تنور میں سے بھی پانی ابل پڑا “ ۔ یہی قول جمہور سلف و خلف ہے کا ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” تنور صبح کا نکلنا اور فجر کا روشن ہونا ہے “ ، یعنی صبح کی روشنی اور فجر کی چمک لیکن زیادہ غالب پہلا قول ہے ۔ مجاہد اور شعبی رحمہ اللہ علیہما کہتے ہیں یہ تنور کوفے میں تھا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ” ہند میں ایک نہر ہے “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ” جزیرہ میں ایک نہر ہے جسے «عین الوردہ» کہتے ہیں “ ۔ لیکن یہ سب اقوال غریب ہیں ۔ الغرض ان علامتوں کے ظاہر ہوتے ہی نوح علیہ السلام کو اللہ کا حکم ہوا کہ اپنے ساتھ کشتی میں جاندار مخلوق میں سے ہر قسم کا ایک ایک جوڑا نر مادہ سوار کر لو ۔ کہا گیا ہے کہ غیر جاندار کے لیے بھی یہی حکم تھا ۔ جیسا نباتات ۔ کہا گیا ہے کہ پرندوں میں سب سے پہلے درہ کشتی میں آیا اور سب سے آخر میں گدھا سوار ہونے لگا ۔ ابلیس اس کی دم میں لٹک گیا جب اس کے دو اگلے پاؤں کشتی میں آ گئے اس کا اپنا دھڑ اٹھانا چاہا تو نہ اٹھا سکا کیونکہ دم پر اس ملعون کا بوجھ تھا ۔ نوح علیہ السلام جلدی کر رہے تھے یہ بہتیرا چاہتا تھا مگر پچھلے پاؤں چڑھ نہیں سکتے تھے ۔ آخر آپ علیہ السلام نے فرمایا ” آج تیرے ساتھ ابلیس بھی ہو آیا “ تب وہ چڑھ گیا اور ابلیس بھی اس کے ساتھ ہی آیا ۔ بعض سلف کہتے ہیں کہ شیر کو اپنے ساتھ لے جانا مشکل ہو گیا ، آخر اسے بخار چڑھ آیا تب اسے سوار کر لیا ۔ ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ وعلیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { نوح علیہ السلام نے جب تمام مویشی اپنی کشتی میں سوار کر لیے تو لوگوں نے کہا شیر کی موجودگی میں یہ مویشی کیسے آرام سے رہ سکیں گے ؟ پس اللہ تعالیٰ نے اسے بخار ڈال دیا ۔ اس سے پہلے زمین پر یہ بیماری نہ تھی ۔ پھر لوگوں نے چوہے کی شکایت کی یہ ہمارا کھانا اور دیگر چیزیں خراب کر رہے ہیں تو اللہ کے حکم سے شیر کی چھینک میں سے ایک بلی نکلی جس سے چوہے دبک کر کونے کھدرے میں بیٹھ رہے } } ۔۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:18154:مرسل) نوح علیہ السلام کو حکم ہوا کہ ’ اپنے گھر والوں کو بھی اپنے ساتھ کشتی میں بٹھالو مگر ان میں سے جو ایمان نہیں لائے انہیں ساتھ نہ لینا ‘ ۔ آپ علیہ السلام کا لڑکا حام بھی انہیں کافروں میں تھا وہ الگ ہو گیا ۔ یا آپ علیہ السلام کی بیوی کہ وہ بھی اللہ کے رسول علیہ السلام کی منکر تھی اور ’ اپنی قوم کے تمام مسلمانوں کو بھی اپنے ساتھ بٹھالے ‘ ، لیکن ان مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی ۔ ساڑھے نو سو سال کے قیام کی طویل مدت میں آپ علیہ السلام پر بہت ہم کم لوگ ایمان لائے تھے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” کل اسی [ 80 ] آدمی تھے جن میں عورتیں بھی تھیں “ ۔ کعب رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” سب بہتر [ 72 ] اشخاص تھے “ ۔ ایک قول ہے ” صرف دس [ 10 ] آدمی تھے “ ۔ ایک قول ہے نوح علیہ السلام تھے اور ان کے تین لڑکے تھے سام ، حام ، یافث اور چار عورتیں تھیں ۔ تین تو ان تینوں کی بیویاں اور چوتھی حام کی بیوی اور کہا گیا ہے کہ خود نوح علیہ السلام کی بیوی “ ۔ لیکن اس میں نظر ہے ظاہر یہ ہے نوح علیہ السلام کی بیوی ہلاک ہونے والوں میں ہلاک ہوئی ۔ اس لیے کہ وہ اپنی قوم کے دین پر ہی تھی تو جس طرح لوط علیہ السلام کی بیوی قوم کے ساتھ ہلاک ہوئی اسی طرح یہ بھی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ وَأَحْکَمُ»