وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا ۚ أُولَٰئِكَ يُعْرَضُونَ عَلَىٰ رَبِّهِمْ وَيَقُولُ الْأَشْهَادُ هَٰؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَىٰ رَبِّهِمْ ۚ أَلَا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جو جھوٹ بول کر اللہ پر بہتان باندھے؟ جو ایسا کر رہے ہیں وہ اپنے پروردگار کے حضور پیش کیے جائیں گے اور اس وقت گواہ گواہی دیں گے کہ یہ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ بولا۔
اللہ جل شانہ پہ بہتان باندھنے والے جو لوگ اللہ کے ذمے بہتان باندھ لیں ، ان کا انجام اور قیامت کے دن کی ساری مخلوق کے سامنے ان کی رسوائی کا بیان ہو رہا ہے ۔ مسند احمد میں صفوان بن محزر کہتے ہیں کہ { میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا ہاتھ تھامے ہوئے تھا کہ ایک شخص آپ کے پاس آیا پھر پوچھنے لگا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے دن کی سرگوشی کی بارے میں کیا سنا ہے ؟ آپ نے فرمایا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اللہ عزجل مومن کو اپنے سے قریب کرے گا یہاں تک کہ اپنا بازو اس پر رکھ دے گا اور اسے لوگوں کی نگاہوں سے چھپا لے گا اور اسے اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا کہ کیا تجھے اپنا فلاں گناہ یاد ہے ؟ اور فلاں بھی اور فلاں بھی ؟ یہ اقرار کرتا جائے گا یہاں تک کہ سمجھ لے گا کہ بس اب ہلاک ہوا ۔ اس وقت ارحم الراحمین فرمائے گا کہ ’ میرے بندے دنیا میں ان پر پردہ ڈالتا رہا سن آج بھی میں انہیں بخشتا ہوں ‘ ۔ پھر اس کی نیکیوں کا اعمال نامہ اسے دے دیا جائے گا ۔ اور کفار اور منافقین پر نو گواہ پیش ہوں گے جو کہیں گے کہ یہی وہ ہیں جو اللہ پر جھوٹ بولتے تھے یاد رہے کہ ان ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2441) یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے ۔ یہ لوگ اتباع حق ، ہدایت اور جنت سے اوروں کو روکتے رہے اور اپنا طریقہ ٹیڑھا ترچھا ہی تلاش کرتے رہے ساتھ ہی قیامت اور آخرت کے دن کے بھی منکر ہی رہے اور اسے مانا ہی نہیں ۔ یاد رہے کہ یہ اللہ کے ماتحت ہیں وہ ان سے ہر وقت انتقام لینے پر قادر ہے ، اگر چاہے تو آخرت سے پہلے دنیا میں ہی پکڑ لے لیکن اس کی طرف سے تھوڑی سی ڈھیل انہیں مل گئی ہے ۔ اور آیت میں ہے «یُؤَخِّرُہُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیہِ الْأَبْصَارُ» ۱؎ (14-ابراھیم:42) ’ وہ تو انہیں اس دن تک مہلت دیے ہوئے ہے جس دن آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی ‘ ۔ بخاری و مسلم میں ہے { اللہ تعالیٰ ظالموں کو مہلت دے دیتا ہے بالآخر جب پکڑتا ہے تب چھوڑتا ہی نہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2583) ان کی سزائیں بڑھتی ہی چلی جائیں گی ۔ اس لیے کہ اللہ کی دی ہوئی قوتوں سے انہوں نے کام نہ لیا ۔ سننے سے کانوں کو بہرہ رکھا ۔ حق کی تابعداری سے آنکھوں کو اندھا رکھا جہنم میں جاتے وقت خود ہی کہیں گے کہ «وَقَالُوا لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا کُنَّا فِی أَصْحَابِ السَّعِیرِ» ۱؎ (67-الملک:10) یعنی ’ اگر سنتے ہوتے عقل رکھتے ہوتے تو آج دوزخی نہ بنتے ‘ ۔ یہی فرمان «الَّذِینَ کَفَرُوا وَصَدٰوا عَن سَبِیلِ اللہِ زِدْنَاہُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا کَانُوا یُفْسِدُونَ» ۱؎ (16-النحل:88) میں ہے کہ ’ کافروں کے لیے اللہ کی راہ سے روکنے والوں کے لیے عذاب پر عذاب بڑھتا چلا جائے گا ۔ ہر ایک حکم عدولی پر ، ہر ایک برائی کے کام پر سزا بھگتیں گے ‘ ۔ پس صحیح قول یہی ہے کہ آخرت کی نسبت کے اعتبار سے کفار بھی فروع شرع کے مکلف ہیں ۔ یہی ہیں وہ جنہوں نے اپنے آپ کو نقصان پہنچایا اور خود اپنے تئیں جہنمی بنایا ۔ جہاں کا عذاب ذرا سی دیر بھی ہلکا نہیں ہوگا ۔ «مَا خَبَتْ زِدْنَاہُمْ سَعِیرًا» ۱؎ (17-الاسراء:97) ’ آگ کے شعلے کم ہونے تو کہاں اور تیز تیز ہوتے جائیں گے ‘ جنہیں انہوں نے گھڑ لیا تھا یعنی بت اور اللہ کے شریک وغیرہ آج وہ ان کے کسی کام نہ آئیں گے بلکہ نظر بھی نہ پڑیں گے بلکہ اور نقصان پہنچائیں گے ۔ وہ تو ان کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کے شرک سے صاف مکر جائیں گے ۔ «وَاتَّخَذُوا مِن دُونِ اللہِ آلِہَۃً لِّیَکُونُوا لَہُمْ عِزًّا کَلَّا سَیَکْفُرُونَ بِعِبَادَتِہِمْ وَیَکُونُونَ عَلَیْہِمْ ضِدًّا» ۱؎ (19-مریم:81 ، 82) ’ گو یہ انہیں باعث عزت سمجھتے ہیں لیکن درحقیقت وہ ان کے لیے باعث ذلت ہیں ۔ کھلے طور پر اس بات کا قیامت کے دن انکار کر دیں گے کہ ان مشرکوں نے انہیں پوجا ۔ ‘ یہ ارشاد خلیل الرحمن علیہ السلام کا اپنی قوم سے تھا کہ «وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُم مِّن دُونِ اللہِ أَوْثَانًا مَّوَدَّۃَ بَیْنِکُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا ثُمَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکْفُرُ بَعْضُکُم بِبَعْضٍ وَیَلْعَنُ بَعْضُکُم بَعْضًا وَمَأْوَاکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُم مِّن نَّاصِرِینَ» ۱؎ (29-العنکبوت:25) ’ ان بتوں سے گو تم دنیوی تعلقات وابستہ رکھو لیکن قیامت کے دن ایک دوسرے کا انکار کر دیں گے اور ایک دوسرے پر لعنت کرنے لگیں گے ۔ اور تم سب کا ٹھکانا جہنم ہو گا اور کوئی کسی کو کوئی مدد نہ پہنچائے گا ‘ ۔ یہی مضمون آیت «اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتٰبِعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا وَرَاَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِہِمُ الْاَسْـبَابُ» ۱؎ (2-البقرۃ:166) میں ہے یعنی ’ اس وقت پیشوا لوگ اپنے مریدوں سے دست بردار ہو جائیں گے عذاب الٰہی آنکھوں دیکھ لیں گے اور باہمی تعلقات سب منقطع ہو جائیں گے ‘ ۔ اسی قسم کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں وہ بھی ان کی ہلاکت اور نقصان کی خبر دیتی ہیں ۔ یقیناً یہی لوگ قیامت کے دن سب سے زیادہ نقصان اٹھائیں گے ۔ جنت کے درجوں کے بدلے انہوں نے جہنم کے گڑھے لیے ۔ اللہ کی نعمتوں کے بدلے جہنم کی آگ قبول کی ۔ میٹھے ٹھنڈے خوشگوار جنتی پانی کے بدلے جہنم کا آگ جیسا کھولتا ہوا گرم پانی انہیں حورعین کے بدلے لہو پیپ اور بلند و بالا محلات کے بدلے دوزخ کے تنگ مقامات انہوں نے لیے ، رب رحمن کی نزدیکی اور دیدار کے بدلے اس کا غضب اور سزا انہیں ملی ۔ بیشک یہاں یہ سخت گھاٹے میں رہے ۔