وَلَئِنْ أَذَقْنَا الْإِنسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنَاهَا مِنْهُ إِنَّهُ لَيَئُوسٌ كَفُورٌ
اور اگر ہم انسان کو اپنی طرف سے رحمت کا مزہ چکھائیں (یعنی اسے ایک نعمت بخشیں) اور پھر اس سے وہ ہٹا لیں تو (وہ ذرا بھی صبر نہیں کرسکتا) یک قلم مایوس اور ناشکرا ہوجاتا ہے۔
انسان کا نفسیاتی تجزیہ سوائے کامل ایمان والوں کے عموماً لوگوں میں جو برائیاں ہیں ان کا بیان ہو رہا ہے کہ ’ راحت کے بعد کی سختی پر مایوس اور محض نا اُمید ہو جاتے ہیں اللہ سے بدگمانی کر کے آئندہ کے لیے بھلائی کو بھول بیٹھتے ہیں گویا کہ نہ کبھی اس سے پہلے کوئی آرام اٹھایا تھا نہ اس کے بعد کسی راحت کی توقع ہے ۔ یہی حال اس کے برخلاف بھی ہے اگر سختی کے بعد آسانی ہو گئی تو کہنے لگتے ہیں کہ بس اب برا وقت ٹل گیا ۔ اپنی راحت اپنی تن آسانیوں پر مست و بےفکر ہو جاتے ہیں ۔ دوسروں کا استہزاء کرنے لگتے ہیں ۔ اکڑ میں پڑ جاتے ہیں اور آئندہ کی سختی کو بالکل فراموش کر دیتے ہیں ۔ ہاں ایماندار اس بری خصلت سے محفوظ رہتے ہیں ، وہ دکھ درد میں صبر و استقامت سے کام لیتے ہیں راحت و آرام میں اللہ کی فرمان برداری کرتے ہیں ۔ یہ صبر پر مغفرت اور نیکی پر ثواب پاتے ہیں ‘ ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے { اس کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے کہ مومن کو کوئی سختی کوئی مصیبت کوئی دکھ ، کوئی غم ایسا نہیں پہنچتا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کی خطائیں معاف نہ فرماتا ہو ، یہاں تک کہ کانٹا لگنے پر بھی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6541) بخاری و مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے { مومن کے لیے اللہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ سراسر بہتر ہے ۔ یہ راحت پاکر شکر کرتا ہے اور بھلائی سمیٹتا ہے ۔ تکلیف اٹھا کر صبر کرتا ہے ، نیکی پاتا ہے اور ایسا حال مومن کے سوا اور کسی کا نہیں ہو } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2999) اسی کا بیان سورۃ والعصر میں ہے ، «وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِی خُسْرٍ إِلَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ» ( 103-سورۃ العصر : 1-3 ) یعنی ’ عصر کے وقت کی قسم تمام انسان نقصان میں ہیں سوائے ان کے جو ایمان لائیں اور ساتھ ہی نیکیاں بھی کریں اور ایک دوسرے کو دین حق کی اور صبر کی ہدایت کرتے رہیں ‘ یہی بیان آیت «إِنَّ الْإِنْسَانَ خُلِقَ ہَلُوعًا إِذَا مَسَّہُ الشَّرٰ جَزُوعًا وَإِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوعًا إِلَّا الْمُصَلِّینَ» ۱؎ (70-المعارج:19-22) میں ہے ۔