قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۖ وَمَا أَنَا عَلَيْكُم بِوَكِيلٍ
(اے پیغمبر) ان لوگوں سے کہہ دو کہ اے لوگو ! تمہارے پروردگار کی طرف سے سچائی تمہارے پاس آگئی ہے، پس جو ہدایت کی راہ اختیار کرے گا تو اپنے ہی بھلے کے لیے کرے گا اور جو بھٹکے گا تو اس کی گمراہی اسی کے آگے آئے گی۔ میں تم پر نگہبان نہیں ہوں (کہ زبردستی کسی راہ میں کھینچ لے جاؤں اور پھر اس سے نکلنے نہ دوں)
نافرمان کا اپنا نقصان ہے اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے حبیب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ’ لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خبردار کریں کہ جو میں لایا ہوں ، وہ اللہ کی طرف سے ہے ۔ بلا شک و شبہ وہ نرا حق ہے جو اس کی اتباع کرے گا وہ اپنے نفع کو جمع کرے گا ۔ اور جو اس سے بھٹک جائے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا ۔ میں تم پر وکیل نہیں ہوں کہ تمہیں ایمان پر مجبور کروں ۔ میں تو کہنے سننے والا ہوں ۔ ہادی صرف اللہ تعالیٰ ہے ‘ ۔ ’ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو خود بھی میرے احکام اور وحی کا تابعدار رہ اور اسی پر مضبوطی سے جما رہ ۔ لوگوں کی مخالفت کی کوئی پرواہ نہ کر ۔ ان کی ایذاؤں پر صبر و تحمل سے کام لے یہاں تک کہ خود اللہ تجھ میں اور ان میں فیصلہ کر دے ۔ وہ بہترین فیصلے کرنے والا ہے جس کا کوئی فیصلہ عدل سے حکمت سے خالی نہیں ہوتا ‘ ۔ ابو یعلیٰ میں ہے کہ { سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بوڑھے کیسے ہو گئے ؟ فرمایا : { مجھے سورۃ ھود ، سورۃ الواقعہ ، سورۃ عم ، اور سورۃ کورت نے بوڑھا کر دیا } }۔ (مسند ابویعلیٰ107/1:سند منقطع:حدیث صحیح) ۔ ترمذی کی اس حدیث میں سورۃ ھود ، سورۃ الواقعہ ، سورۂ والمرسلات ، سورۃ النباء اور سورۃ الشمس کورت کا ذکر ہے (سنن ترمذی3297،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۔ ایک روایت میں ہے ، { سورۃ ھود اور اس جیسی اور سورتوں نے مجھے بوڑھا کر دیا } ۔ طبرانی میں ہے ، { مجھے سورۃ ھود نے اور اس جیسی سورتوں مثلاً سورۃ الواقعہ ، الحاقہ ، اذالشمس کورت نے بوڑھا کر دیا ہے } (طبرانی کبیر:5804:سخت ضعیف) ۔ ایک روایت میں سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے اس سوال کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صرف دو سورتوں کا ذکر کرنا مروی ہے ۔ سورۂ ھود اور سورۂ واقعہ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:10091:سخت ضعیف)