وَيَسْتَنبِئُونَكَ أَحَقٌّ هُوَ ۖ قُلْ إِي وَرَبِّي إِنَّهُ لَحَقٌّ ۖ وَمَا أَنتُم بِمُعْجِزِينَ
اور تجھ سے پوچھتے ہیں کیا یہ بات واقعی سچ ہے؟ تم (بلا تامل) کہو ہاں میرا پروردگار اس پر شاہد ہے کہ یہ سچائی کے سوا کچھ نہیں، اور تم کھی ایسا نہیں کرسکتے کہ اسے (اس کے کاموں میں) عاجز کردو۔
مٹی ہو نے کے بعد جینا کیسا ہے؟ ’ پوچھتے ہیں کہ کیا مٹی ہو جانے اور سڑ گل جانے کے بعد جی اُٹھنا اور قیامت کا قائم ہونا حق ہی ہے ؟ تو ان کا شبہ مٹا دے اور قسم کھا کر کہہ دے کہ یہ سراسر حق ہی ہے ۔ جس اللہ نے تمہیں اس وقت پیدا کیا جب کہ تم کچھ نہ تھے ۔ وہ تمہیں دوبارہ جب کہ تم مٹی ہو جاؤ گے پیدا کرنے پر یقیناً قادر ہے وہ تو جو چاہتا ہے فرما دیتا ہے کہ «إِنَّمَا أَمْرُہُ إِذَا أَرَادَ شَیْئًا أَن یَقُولَ لَہُ کُن فَیَکُونُ» ۱؎ (36-یس:82) ’ یوں ہو جا اسی وقت ہو جاتا ہے ‘ ‘ ۔ اسی مضمون کی اور دو آیتیں قرآن کریم میں ہیں ۔ سورۃ سبا میں ہے «قُلْ بَلٰی وَرَبِّیْ لَتَاْتِیَنَّکُم» ۱؎ (34-سبأ:3) ، سورۃ التغابن میں ہے «قُلْ بَلٰی وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُـنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُم» ۱؎ (64-التغابن:7) ان دونوں میں بھی قیامت کے ہونے پر قسم کھا کر یقین دلایا گیا ہے ۔ اس دن تو کفار زمین بھر کر سونا اپنے بدلے میں دے کر بھی چھٹکارا پانا پسند کریں گے ۔ دلوں میں ندامت ہوگی ، عذاب سامنے ہوں گے ، حق کے ساتھ فیصلے ہو رہے ہوں گے ، کسی پر ظلم ہرگز نہ ہوگا ۔ «یَوْمَ یُدَعٰونَ إِلَیٰ نَارِ جَہَنَّمَ دَعًّا ہٰذِہِ النَّارُ الَّتِی کُنتُم بِہَا تُکَذِّبُونَ أَفَسِحْرٌ ہٰذَا أَمْ أَنتُمْ لَا تُبْصِرُونَ اصْلَوْہَا فَاصْبِرُوا أَوْ لَا تَصْبِرُوا سَوَاءٌ عَلَیْکُمْ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ» ۱؎ (52-الطور:13-16) ’ جس دن وہ دھکے دیدے کر آتش جہنم کی طرف لائیں جائیں گے ، یہی وہ آتش دوزخ ہے جسے تم جھوٹ بتلاتے تھے ، [ اب بتاؤ ] کیا یہ جادو ہے ؟ یا تم دیکھتے ہی نہیں ہو ، جاؤ دوزخ میں اب تمہارا صبر کرنا اور نہ کرنا تمہارے لیے یکساں ہے تمہیں فقط تمہارے کیے کا بدلہ دیا جائے گا ‘ ۔